بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ بی ایل اے اپنے صفوں کے ایک سینئر، مخلص، اور بہادر کمانڈر ملک خان محمد مری ولد میرو خان مری کی وفات پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتی ہے اور ان کی رحلت کی خبر کو باضابطہ طور پر قوم کے باشعور طبقات تک پہنچاتی ہے۔ آپ طویل عرصے تک بی ایل اے سے منسلک رہے، اور اپنی عمر کے آخری ایام تک اس قومی فرض سے وابستہ رہے جس کی بنیاد قربانی، شعور، اور نظریاتی وابستگی پر رکھی گئی ہے۔
ترجمان نے کہاکہ کمانڈر ملک خان محمد مری ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس کی مزاحمتی تاریخ بلوچستان کی اجتماعی حافظے میں ایک نمایاں حوالہ ہے۔ ان کے دادا جانی خان مری نے انگریز سامراج کے خلاف ہڑب کے مقام پر ہونے والی معروف جنگ میں مزاحمت کرتے ہوئے شہادت پائی، جو اس خاندان کے لیے ایک انقلابی روایت کی ابتدا تھی۔ اسی روایت کو ان کے بڑے بھائی غلام نبی مری نے نواب خیربخش مری کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر سن 1973 کی مسلح جدوجہد میں نبھایا اور اپنے وفات تک نواب مری کے قریبی ساتھی رہے۔ اُنکے بعد قبیلے کی دستار ملک خان محمد مری کے سر پر رکھی گئی۔
انہوں نے کہاکہ ملک خان مری، جوانسالی میں چند ساتھیوں کے ہمراہ سنہ ۵۸ کی مزاحمت میں نواب نوروز خان کی گرفتاری کے بعد، انکے ساتھیوں کی مدد کیلئے کوہلو سے جھالاوان تک پیدل پہنچے اور اپنے مزاحمتی زندگی کا آغاز کیا، جس کے بعد وہ پوری زندگی بلوچ قومی تحریک آزادی کے متحرک سپاہی رہے۔ آپ نہ صرف نواب نوروز خان کی تحریک کے گواہ تھے بلکہ فعال شریک بھی رہے، اور اُن کی زندگی اس استقامت کی علامت رہی جسے نہ وقتی لالچ بدل سکا، نہ حالات کی سختی۔ ان کے بیٹے ظفر مری نے حالیہ بلوچ قومی تحریک میں شہادت پائی، اور آپ نے اپنے خاندان میں درجنوں شہادتوں کا غم سہا۔
انہوں نے کہاکہ کمانڈر ملک خان محمد مری شہید استاد جنرل اسلم بلوچ کے قریبی رفقاء میں شامل تھے۔ سن 2005 سے جب اسلم بلوچ بولان کیمپ کے کمانڈر کی حیثیت سے قومی جدوجہد کی قیادت کر رہے تھے، اُس وقت سے ملک خان محمد نہ صرف اُن کے قریب ہوئے بلکہ اُن کی رہنمائی و مشاورت کا فکری سہارا بھی بنے۔ یہ رفاقت وقتی یا حالات کی مجبوری نہ تھی، بلکہ ایک نظریاتی ہم آہنگی پر مبنی تھی، جو وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتی گئی۔ جب شہید اسلم بلوچ نے بلوچ لبریشن آرمی کی تنظیم نو کا آغاز کیا اور تحریک و تنظیم کو ایک ادارہ جاتی و انقلابی ڈھانچے کی طرف منتقل کرنے کا عمل شروع کیا، تو ملک خان محمد مری اُن کمانڈران میں سے تھے جنہوں نے قبائلی روایات، خاندانی تعلقات اور مقامی مفادات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس تبدیلی کا شعوری ساتھ دیا۔ وہ ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے اسلم بلوچ کے نظریئے کو فقط قبول نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس پر کاربند بھی رہے۔ ان کی وابستگی ذاتی تعلق سے نہیں بلکہ اس نظریاتی بنیاد سے تھی جسے اسلم بلوچ نے فکری استقلال اور انقلابی تنظیم سازی کے ذریعے تحریک کے جسم میں روح کی طرح شامل کیا تھا۔
مزید کہاکہ بی ایل اے کے ابتدائی تنظیمی ڈھانچے کی خاموش تعمیر سے لے کر حساس ادوار میں تنظیم نو، اور مسلسل داخلی استحکام کی حفاظت تک، ملک خان محمد مری نے ایسے کردار نبھائے جنہیں صرف وہی لوگ پہچان سکتے ہیں جو تحریک کے اندر سے اس عمل کو جانتے ہیں۔ ان کی زندگی کی جہت صرف جنگی نہیں بلکہ فکری، سماجی، سیاسی، اور تنظیمی بھی تھی۔
انہوں نے کہاکہ آپ کی وفات ایک طویل بیماری کے بعد چھیاسی سال کی عمر میں ہوئی، اور تنظیمی فیصلے کے مطابق آپ کی تدفین مکمل قومی عزت و احترام کے ساتھ انجام دی گئی، اور آج ان کی یاد کو اجتماعی سطح پر خراج پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی خدمات بلوچ قومی حافظے کا حصہ بنیں۔
بلوچ لبریشن آرمی، کمانڈر ملک خان مری کی وفات کو نہ صرف ایک تنظیمی صدمہ سمجھتی ہے بلکہ تحریک کے ان تمام کرداروں کی علامت بھی مانتی ہے جو بظاہر خاموش رہ کر تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا جانا ہمیں ایک بڑی کمی کا احساس دلاتا ہے، مگر ان کی زندگی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ کردار مر سکتے ہیں مگر نظریے، عہد اور قربانی کا تسلسل جاری رہتا ہے۔
بیان کے آخر میں کہاکہ بی ایل اے ان کے خاندان، قریبی ساتھیوں، اور ان تمام کارکنان سے تعزیت کا اظہار کرتی ہے جنہوں نے کمانڈر ملک خان محمد مری جیسے رہنما کے ساتھ جدوجہد کے دن اور راتیں گزاریں۔ ہم ان کے نظریاتی وارث ہونے کے ناطے یہ عہد کرتے ہیں کہ ان کی یاد اور جدوجہد کو تنظیمی نصاب، اور یادداشت میں محفوظ رکھا جائے گا۔