بلوچ عورت اور ریاستی جبر
تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پانچ سال قبل 8 مارچ کو ہم نے ماما قدیر کے کیمپ میں ان بلوچ خواتین کی خاطر وومن ڈے منانے کا فیصلہ کیا جو اپنے پیاروں کے لیے سالوں سے ناصرف انتظار کا غم جھیل رہی ہے بلکہ وہ سڑکوں پر ایک جابر ریاست سے اپنے پیاروں کو واپس مانگ رہی ہے۔ اسی روز پریس کلب میں بھی ایک پروگرام تھا، اور ان لوگوں نے ہمیں کہاں کہ الگ پروگرام کرنے سے بہتر ہے آجائے ہمارے ساتھ ایک پروگرام میں، ہم نے انکار کیا کہ بلوچ عورت کا مسئلہ شاید آپ لوگ صحیح سے بیان نہیں کر پاؤں گے، آپ لوگوں کے لیے آزاد عورت مقصود ہے جبکہ ہمارے لیے آزاد عورت مصیبتوں کا شکار ہے۔ پہلے ہم ماما قدیر کے کیمپ میں چھوٹا سا پروگرام رکھینگے اور اس کے بعد ہم آپ لوگوں کے پروگرام میں شرکت کرینگے۔
میں نے ماما قدیر کے کیمپ میں میں ایک شعر لکھا جس کا ایک لائن مجھے یاد ہے باقی شعر کھو چکی ہوں شاید وہ سوشل میڈیا پر موجود ہو۔ شعر کا عنوان یہ تھا
“میں ایک بلوچ عورت،
میرے وجود کو خطرہ
میری قید سے نہیں میری آزادی ہے”
یہ جملہ ہمارے ماضی کے لیے تھا اور ہمارے آج کے لیے بھی ہے۔ ہر بلوچ عورت کو دیکھے، یہ کم معنی رکھتا ہے کہ اسےسماج کتنا قید رکھ رہا ہے، بلکہ وہ آزاد ہوکر کس قدر ریاست کا نشانہ بننے کے خطرے پر ہے۔ یاد کریں نجمہ بلوچ کو جو آواران جیسے علاقے میں ایک استانی تھی، جسے ڈیتھ اسکواڈ نے مجبور کیا کہ انکے لیے کام کریں، اور جب اسے مسلسل ہراساں کیا تو اس نے خود کشی کر لی اس بلوچ عورت کو خطرہ اس کے گھر یا سماج سے نہیں تھا ، اسے ریاست کے پالے غنڈوں نے زندگی ختم ہونے پر مجبور کیا، یا کچھ ماہ قبل خضدار میں اغوا ہونے والی لڑکی ، اسما بلوچ، جسے ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار اس کے گھر سے اغوا کرکے لے گئے، جس پر اول تو گٹر میڈیا نے خوب کیچڑ اچھالا مگر اس کے بھائی نے جدوجہد جاری رکھا تو ڈی سی خود ملزم کو منت سماجت کرکے لڑکی کو واپس لے آئی، اگر اس لڑکی کی خاندان جدوجہد نا کرتی تو وہ لڑکی ہزاروں دیگر لڑکیوں کی طرح ڈیتھ اسکوڈ کے نظر ہو جاتی۔
ریاست کے لیے پر خطر تو ہر بلوچ ہے، کیونکہ بلوچ سر زمین پر مکمل غلبے کے لیے ہر بلوچ کا خاتمہ چاہیے انہیں مگر ریاست کو سب سے زیادہ الجھن اس لڑکی سے ہے جو پڑھی لکھی ہے یا شعور رکھتی ہے۔ ماہ رنگ نے اس وقت میڈیکل کے لیے کوالیفائی کیا جب بلوچستان بھر کے لیے صرف 250 میڈیکل سیٹ تھے، وہ اپنے کلاس میں کبھی بھی کسی سبجیکٹ میں فیل نہیں ہوئی، ایف سی پی ایس پارٹ ون کرکے اب سرجری میں پوسٹ گیجویٹ ٹرینی ہے، وہ ایک اعلی تعلیم یافتہ با اعتماد خاتون ہے اسے آج تک بلوچ سماج نے نہیں روکا مگر وہ گزشتہ دو ماہ سے ریاست کے اپنے قید خانوں میں قید ہے۔
بیبو بلوچ ان کم بلوچوں میں سے ہے جس نے او لیولز اور اے لیولز کیا ہے، اس نے چارٹڈ اکاؤنٹنٹس کے کچھ امتحانات بھی دیئے البتہ کچھ مسائل کی وجہ سے بیچ میں چھوڑنا پڑھا، پھر اکنامکس میں ماسٹرز کیا ، آیف بی آر میں جوب پر تھی جہاں سے صرف احتجاجوں میں حصہ لینے پر معطل کی گئی، وہ بھی دو ماہ سے جیل میں ہے۔
گلزادی اپنے عمر سے زیادہ بہادر اور ہوشیار لڑکی ہے، جس نے مچھ جیسے علاقے سے میٹرک کیا جہاں لوگوں کی زندگیاں کوئلے کی کانوں میں گزرتی ہے وہی گلزادی بچپن میں ہی یتیمی کے غم کے ساتھ اپنا بوجھ اٹھانا سیکھ لیا، والد اور والدہ دونوں کا سایہ چھن جائے، بھائی کوئلے کی کھان میں مزدور ہو اور بہن میٹرک بھی کرلے پھر پرائیویٹ ایف اے کر کے لا ایڈمیشن ٹیسٹ پہلے مقابلے میں پاس کرلے وہ قابل تحسین ہے، اور اسی دوران وہ دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ سڑکوں پر بھی موجود ہو، پھر وہی لڑکی جیل میں بھیج دیا جائے۔
میرا سفر تو میرے ارد گرد کے تمام لوگوں کے ہمیشہ باعث فخر رہا ہے، خود کو تشکیل دینے میں گو کہ مدد بہت ملی مگر یہ سفر میں نے اپنے بل بوتے پر کیا، ایک گاؤں سے پرائمری پڑھ کر نکلنے کے بعد ایف سی پی اس تک، شاید میری کہانی ان لوگوں کے لیے باعث فخر ہو جو سمجھتے ہے کہ مسائل آپکا راستہ روکتے ہیں، میرے پاس اسکول کا مسئلہ، قبائلی معاشرے کا مسئلہ، اور معاشی مسئلہ سب کچھ تھا مگر مجھے کسی نے نہیں روکا، اور میں آگے بڑھتی گئی پر آج لگتا ہے جیسے میں رکی ہوئی ہوں، اور وہ تمام مسائل جنہیں میں پار کرکے آئی شاید وہ چھوٹی تھی، سامنے ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہے “ریاست”، دو ماہ سے روپوشی میں ہوں، نا اپنی پڑھائی جاری رکھ پارہی ہوں اور نا ہی اپنے مرضی سے کہیں جاسکتی ہوں، والد کا غم ایک طرف اور ساتھیوں کا غم ایک طرف، اور اس بیچ قوم پر ہوتا ہوا ظلم دیکھ کر جیسے آپ کو اندر سے کھا رہی ہو، اور یہ سب جو میرے وجود کو اندر سے توڑ رہے ہیں، یہ صرف ریاست کا دیا ہوا جبر ہے۔
ماہ جبین بلوچ، جو ایک بلوچ عورت ہے، بیسیمہ میں پیدا ہونا جہاں کالج و یونیورسٹی موجود نہیں، پھر پولیو کا شکار ہوجانا ، معذور بچی کو گھر سے دور شہر پڑھنے بھیجنا ماں کے لیے کتنا دردناک ہوگا؟ اور معاشی حالت ایسی نہیں کہ ماں بھی ساتھ آجائے، پھر وہی لڑکی جو سہم کر رہے دنیا سے دور دور، اپنے کام سے کام، کیونکہ اس کے لیے زندگی ہم جیسی نہیں تھی۔ جب میں نے صبح سویرے فون کھولا تو ایک سہیلی کا میسج آیا تھا ماہ جبین کو لے گئے؟ کونسی ماہجبین وہی جو معذور ہے؟ آگے سے جواب آیا ہاں، میں نے دو مرتبہ واپس پوچھا، وہی بیسیمہ والی؟ لڑکی نے جواب دیا ہاں وہی، میں حیران تھی کیوں؟ کیسے لوگ تھے؟ میں اب بھی ششدر ہوں، کب سے سوچ رہی ہوں، کیوں لے گئے وہ ماہ جبین کو؟ شاید ماہل کی طرح اسے بھی تشدد کا نشانہ بنا کر کوئی زبردستی جھوٹ موٹ کا پریس کانفرنس کروالیں اور خوشیاں منا لیں کہ جی دہشت گرد پکڑ لیا، اس حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے کہ بزور تشدد لیا گیا بیان قابل قبول نہیں ہوتا، اس حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے کہ جبری گمشدہ کرنے کے لیے کوئی بھی جواز نہیں ہوتا، کوئی دہشتگرد ہو بھی تو گرفتار کیا جاتا ہے جبری گمشدہ نہیں۔۔ کسی بھی سرگرمی میں شامل ہونے پر یا مشکوک ہونے پر اسے اس کے کلاس سے بھی گرفتار کیا جاسکتا تھا، اسے پہلے مطلع کرکے تحقیقات کےلیے کہیں بھی بلوایا جاسکتا تھا، مگر اسے اغوا کیا گیا۔۔۔ چوروں کی طرح۔۔۔ آدھی رات کو، ہاسٹل سے۔۔۔ اور اب اڑتالیس گھنٹے گزر چکے ہیں مگر اب تک گمشدہ ہے، یہی عمل خود غیر قانونی ہے، اور غیر قانونیت کا سہارا لے کر کوئی عمل قانونی نہیں ہوسکتا ہے۔
دنیا بھر کی خواتین کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کہ انہیں معاشرہ صنفی امتیازی سلوک کا نشانہ بناتا ہے۔ ایک ہی معاشرے میں مردوں کے لیے اصول کچھ اور ہوتے ہیں اور خواتین کے لیے کچھ اور۔ ان کی زندگیوں کے فیصلے اکثر مردوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اور بلوچستان کے چند علاقوں میں بھی یہی صورتحال پائی جاتی ہے، جہاں زندگی کے بعض اہم معاملات کا فیصلہ مرد ہی کرتے ہیں۔
تاہم، بلوچستان کی خواتین کو اپنے معاشرے کے علاوہ ریاست کی طرف سے نہایت ہی شدید اور خطرناک جبر کا سامنا کرنا پڑھتا ہے، جو بلواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقوں سے ان کی زندگیاں تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ بلوچستان کی وہ تمام خواتین جو جبری گمشدہ افراد کے لیے وکیل کے طور پر اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں اگر وہ خاموش ہیں تو معاشرے میں زندہ رہنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں، اور اگر وہ سڑکوں پر نکل کر انصاف مانگتی ہیں تو:
کبھی جوڈیشل کمیشن کی جانب سے ہراسانی کا نشانہ بنتی ہیں
کبھی پولیس کے ہاتھوں تشدد کا
قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دھمکیاں
اورایف آئی آر کاٹی جاتی ہے
یہ خواتین ہر طرح کے جبر کا شکار ہیں۔ حتیٰ کہ جب وہ ریلیوں میں شریک ہوتی ہیں، ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، شیلنگ کی جاتی ہے، اور ان کے معصوم بچوں کی زندگیوں پر خوف کی گہری چھاپ چھوڑ دی جاتی ہے۔
جبری گمشدہ شبیر کی بہیں سیما بطور ماں اپنی ایک کہانی سناتی ہے کہ اس کا بیٹا میراس ایک احتجاج میں اس کے ساتھ تھا جب کراچی میں ان پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اس واقعے کو چھ سال گزر چکے ہیں، مگر میراس آج تک دوبارہ کسی بھی احتجاج میں اپنی ماں کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے ذہن میں وہ وحشتناک لمحہ ایک مستقل خوف بن چکا ہے۔
ایک اور خاتون بتاتی ہیں کہ جب وہ کوئٹہ میں ریڈ زون کی جانب ایک ریلی میں جا رہی تھیں، تو ریلی پر شیلنگ ہوئی، اور ان کے بچے ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئے۔ ان کی چھوٹی بچی سڑک پر کھڑے ہو کر چیخ رہی تھی: “میری ماں مر گئی ہے، اس کی لاش پولیس اٹھا کر لے جائے گی۔”
بلوچستان میں وہ خواتین بھی موجود ہیں جو ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں، تو انہیں بھی شدید ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ خواتین کا استعمال محض ایک بیانیہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ تمام بلوچ دہشت گرد ہیں، اور ان کے ساتھ کوئی بھی سلوک جائز ہے۔
انہیں زبردستی پریس کانفرنسز میں بٹھایا جاتا ہے، ان سے بیانات رٹوائے جاتے ہیں۔ یہ خواتین کوئی بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر ان سے بیان لینا ہو تو انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے، یا تشدد سے مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی خاتون خوبصورت ہو، اور کسی ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار کی نظر میں آ جائے، تو وہ اس کو گھر سے اغوا کر سکتے ہیں ان کے پاس بندوق کی طاقت ہے، انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔
بلوچستان کی خواتین کو ایجنسیاں اس حد تک مجبور کر سکتی ہیں کہ وہ خودکشی تک کر لیں۔ روز روز کے چھاپے، ذہنی دباؤ، جسمانی اور نفسیاتی تشدد انہیں اس نہج پر لے آتے ہیں ہے کہ وہ خودکشی کر لیتی ہے۔ یہ سب وہ کہانیاں ہے جو میں نے اپنے 10 سال کے جدوجہد کے سفر میں دیکھے ہیں، اور پڑھنے والوں کے یہ صرف کہانیاں ہونگے، میں انہیں دیکھا ہے سُنا ہے۔
ہم صرف صنفی امتیازی سلوک کے خلاف بات کر کے بلوچستان کی عورتوں کا درد بیان نہیں کر سکتے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن پر پوری ریاست اپنا جبر آزماتی ہے، اپنی پوری طاقت ان کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ان کے بارے میں ہم تب ہی بات کر سکتے ہیں ہم ہر بلوچ کی زندگی کا بغور جائزہ لے، کیس اسٹڈی کریں، اور بلوچ خواتین کو مسائل کو بیان کرنے لیے ایک الگ اسٹیج مختص کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔