بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کا ویڈیو پیغام جاری

381

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ اور بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے دنیا کے نام اپنے ایک خصوصی ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ میں سننے والوں سے اس لئے اردو میں بات کررہا ہوں تاکہ جو عام آدمی ہے یا پنجابی دانشور اچھی طرح سمجھ لیں کہ آزادی کی جدوجہد کیا ہوتی ہے اور کالونیل پاور یا سامراجیت کیا ہوتی ہے لہذا بلوچ قوم اپنی کھوئی ہوئی آزادی یا چھینی ہوئی آزادی کے لئے جدوجہد کررہی ہے اور تمام بین الاقوامی اصولوں کو بروئے کار لارہی ہے اگر کوئی منافقت نہ کریں خاص کر میں پنجابی اور بلوچ ففتھ کالمسٹ ہیں یا دانشور ہیں ان سے مخاطب ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کی آزادی کی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر جو پذیرائی اور قبولیت حاصل ہو رہی ہے، اس نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیونکہ جب کوئی ریاست فاشزم، شائونزم، اور مظالم پر مبنی ہو جیسا کہ پاکستان تو وہ خود کو عالمی سطح پر بے نقاب ہوتے دیکھ کر گھبرا جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ صرف ایک شائونسٹ ریاست ہے جس پر پنجاب کی بالادستی قائم ہے، بلکہ اسے دنیا کی تمام منفی اصطلاحات کا عملی نمونہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ “روگ اسٹیٹ” (rogue state)، “بڈیپ اسٹیٹ”، “آئبرڈ رجیم” یہ سب اصطلاحات پاکستان پر پوری اترتی ہیں۔ اس کی فوج دراصل ایک پراکسی فورس کے طور پر کام کرتی ہے، جو عوامی مفادات کی بجائے اپنے مخصوص مقاصد کے تحت سرگرم ہے۔

اسی بیانیے کو توڑنے کے لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اپنے گماشتوں کے ذریعے جھوٹا تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان میں سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ شامل ہیں، جو تنخواہوں میں اضافے جیسے ذاتی مفادات کے لیے پیش پیش رہے، اور موجودہ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی بھی، جنہیں عوام کی نہیں بلکہ جی ایچ کیو کی نمائندگی حاصل ہے۔

سرفراز بگٹی سے میرا بس اتنا کہنا ہے کہ غلام حسین مسوری بگٹی کی قبر آپ پر لعنت بھیج رہی ہے ، وہ بگٹی، جس نے اپنے وطن کے لیے قربانی دی، اور آپ نے اسی وطن سے غداری کی۔ آپ بلوچ قومی جنگِ آزادی کے خلاف اس فاشسٹ سوچ کے پیروکار بن گئے ہیں، جو جنرل گریسی جیسے انگریز سامراجیوں کی باقیات ہے۔ آپ نے غلام حسین مسوری بگٹی کی قربانیوں کو روند ڈالا ہے۔

“میں اس بحث کو یہاں نہیں بڑھاتا، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر فاشسٹ ریاست جب اندرونی طور پر کمزور ہوتی ہے تو آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بے رحمانہ طریقے اختیار کرتی ہے۔ آج بلوچ جنگِ آزادی کے سرمچار، سوشل ایکٹیوسٹ، معصوم نوجوان جیلوں میں قید ہیں، صرف اس لیے کہ وہ اپنی شناخت اور حقِ آزادی کی بات کرتے ہیں۔”

“یہ ریاست ہر وقت اپنے لیے دشمن تراشتی ہے، کیونکہ وہ اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے ، اخلاقی طور پر شکست خوردہ ہے۔ اسی لیے غیر مہذب حرکتیں کی جا رہی ہیں، اور پوری قوم کو “بلوچ شائونسٹ” یا “بلوچ ایکسٹریمسٹ” کہہ کر بدنام کیا جا رہا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ نہ بلوچ شائونسٹ ہیں، نہ انتہاپسند،ہم انسان دوست ہیں، آزادی پسند ہیں، اور اپنے حقِ خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔”

ان کا کہنا ہے کہ بلوچوں کے بیانیے کو جو حالیہ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے، اُس سے گھبرا کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایک نیا بیانیہ گھڑنے کی کوشش کی ہے کہ گویا بلوچ پنجابیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سات لاکھ فوج، اور اگر ریٹائرڈ اہلکاروں کو شامل کیا جائے تو بیس سے پچیس لاکھ افراد، بلوچ وسائل پر قابض ہیں اور انہی وسائل سے ہماری نسل کو کچلا جا رہا ہے۔

“عام پنجابی سپاہی کسی جاگیردار یا سرمایہ دار کا بیٹا نہیں، وہ بھی ایک عام پنجابی ہے لیکن وہ ایک ایسے نظام کا آلہ کار بن چکا ہے جو نہ اسے بخشتا ہے، نہ ہمیں لیکن پڑھے لکھے پنجابی کو بھی اس کا احساس نہیں ہے کہ بلوچ محکوم ہے، مظلوم ہے، ہم نے قبضہ کیا ہوا ہے لیکن ہم کو چاہئیے ہم اس بدمعاش ریاست کی بدمعاش آرمی کے ساتھ نہ رہیں۔لیکن ہمیں دوستی نہیں ہے نفرت ہے اس بیانیہ سے جو یہ پنجابیوں کے قتل عام یا عام سویلین کی جو خود پنجاب کررہی ہے اسکے ہم مخالف ہیں کیونکہ ہمیں تاریخ میں اس کی مثال ملتی ہے لیاقت علی خان نے پاکستان بنایا، اس کو مار ڈالا، بھٹو نے کانسٹیٹشن اور نام نہادی ایٹمی پاور دی اس کو قتل کردیا، بے نظیر کو خود ان لوگوں نے قتل کیا، لیاقت علی خان کے جو قاتل ہیں ان کو ابھی تک مراعات مل رہی ہیں جو انکے نواسے ہیں پوتے ہیں، پڑ پوتے ہیں کچھ کو باہر بھیجا گیا تو لہذا بلوچ جنگ آزادی کے خلاف اعلیٰ اسکیلیشن آپریشن ہورہی ہے جہاں انکی فوج نفسیاتی طور پر شکست کھا چکی ہے تو ایک بیانیہ بنا رہے ہیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا ہے کہ میں یہ بات واضح کردوں کہ صرف ایران اور افغانستان میں بلوچوں کو نہیں مارا گیا ہے جیسے کہ اس کا سابقہ فوجی ڈکٹیٹر نے خود کہا کہ اب پرو ایکٹیو عمل کریں، دنیا میں جہاں بھی بلوچ ہیں مارے جائیں ، مثال کے طور پر کینیڈا میں بلوچ رہنماء لمہ کریمہ بلوچ بلوچ اور بلوچ دانشور ساجد حسین کو سوئیڈن میں مارا گیا اور اپنے ہی پنجابی وقاص گورایہ کو مارنے کیلئے برطانیہ سے لوگ بھیجے یہ دنیا کے سامنے سب سے بڑی واضح مثال ہے اور جو لندن کا جو واقعہ ہوا اس میں بھی پاکستان شامل ہے۔