بلوچستان پر ایٹمی حملہ تباہی رکی نہیں، بڑھ رہی ہے
تحریر: میر ساول بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
28 مئی 1998 کو قابض ریاست نے چاغی کے پہاڑوں پر ایٹمی تجربہ نہیں، بلکہ ایک ملک اور قوم پر ایٹمی حملہ کیا جس سے نہ صرف بلوچستان میں پانی کے ذخائر سوکھ گئے، جنگلی حیات چرند پرند کو بھی نقصان پہنچا بلکہ آج تک ہر جاندار چاہے انسان ہو یا جانور آدھی ادھوری پیدا ہوتی ہیں۔
28 مئی، ایک ایسی تاریخ جسے پاکستان میں “یومِ تکبیر” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کی سالگرہ پر جشن منانے والے بلوچ قوم کی نسل کشی پر خوشی منانے جیسا ہے جس پر فخر کیا جاتا ہے، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، قومی نغمے گائے جاتے ہیں مگر وہی دن بلوچستان کے لیے درد، بربادی اور زخموں کی یاد دلاتا ہے۔ چاغی کے پہاڑ آج بھی گواہ ہیں کہ کس طرح ریاست نے اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے ایک پوری زمین اس کے باسیوں اور فطرت کو قربان کر دیا۔
ایک نوآبادیاتی ریاست کے وجود کو “محفوظ” بنانے کے لیے بلوچستان میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا اور وہی ہتھیار بلوچ قوم کی زندگی کو اجاڑ گیا جو صدیوں سے اس سرزمین کے وفادار اور وارث رہے۔
28 مئی بلوچستان پر صرف ایٹمی تجربات نہیں تھے بلکہ یہ ایک حملہ تھا جو آج بھی بلوچستان کے لیے المیے بیماری، بربادی اور نسل کشی کی علامت بنا ہوا ہے اس حملے نے نہ صرف بلوچ اور اس کے سرزمین کو تباہ کیا بلکہ آنے والے نسلوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دی جو نسل در نسل پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اٹیمی حملے کے بعد ماضی کے تباہی کو تو ہم اپنے آنکھوں سے دیکھ چکے مگر ایک بڑی سچائی یہ ہے کہ مستقبل میں بھی یہ جاری رہے گا جس میں ایٹمی دھماکوں کے بعد بلوچ آبادی میں پیدا ہونے والی طبی اور حیاتیاتی تبدیلیاں، جیسے:بچوں میں ذہنی و جسمانی معذوری۔ زرخیز زمینوں کا بنجر ہونا۔ آلودہ پانی اور مہلک بیماریوں کا مذید پھیلاؤ زیر زمین پانی تابکاری زراعت مکمل طور پر تباہی اور ہوا میں یورینیم اور پلاٹونیم کے ذرات مستقبل میں بھی موجودگی جس کی وجہ سے جنگلی حیات معدوم ہونے کے ساتھ مقامی لوگوں کی زندگیاں مستقبل میں بھی اسی طرح برباد ہوتی رہے گی۔
ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ اس کی تباہی مزید بدتر ہوگی ماحولیاتی تبدیلی (climate change) کے ساتھ مل کر بلوچستان میں موجود ایٹمی تابکاری (radioactive contamination) (تابکار آلودگی)مزید خطرناک اور تباہ کن ہو جائے گی جس سے کینسر، جلدی بیماریوں، سانس کی تکلیف اور ذہنی کمزوریوں میں اضافہ ہوگا بچے زیادہ تر معذور، ذہنی پسماندہ یا جسمانی کمزوری کے ساتھ پیدا ہونگے، آنے والی نسلیں جینیاتی طور پر زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں ایٹمی دھماکہ صرف ایک لمحے کی تباہی نہیں ہوتی، بلکہ یہ نسلوں پر پھیلا ہوا ایک خاموش قتل ہوتا ہے۔ ایٹمی تابکاری کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور تباہی صرف چاغی کے پہاڑوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ہوا پانی مٹی اور جانوروں کے ذریعے بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچتی رہے گی۔
اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ایسی سرگرمیاں جو زمین، فضا، پانی اور ماحول کو مستقل نقصان پہنچائیں، وہ ماحولیاتی دہشتگردی (Ecocide) کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والا ریڈی ایشن اب تک زمین کی تہوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف انسان بلکہ چرند، پرند درخت، اور سب کچھ زہریلے ذرات کے سائے میں جی رہے ہیں یا مر رہے ہیں بلوچستان میں یہ تمام حقائق ماحولیاتی دہشتگردی (ecocide) کے زمرے میں آتے ہیں یہ تمام عوامل “نسل کشی” کے تعریفی عناصر سے میل کھاتے ہیں۔
جیسا کہ اقوام متحدہ کے Genocide Convention(نسل کشی کنونشن)میں بیان کیا گیا ہے یہ واضح ہوتا ہے بلوچستان قابض ریاست نے بلوچ قوم کی مرضی کے بنا اٹیمی دھماکے کیے ہیں یہ عالمی اصولوں اور اقوام متحدہ اور جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی اور نسل کشی کے ذمرے میں آتے ہیں کیونکہ جنیوا کنونشن مطابق، کسی بھی قوم یا خطے پر اس کی مرضی کےخلاف ایٹمی تجربات کرنا ایک جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
جب کوئی ریاست مقبوضہ آبادی پر مہلک تجربات کرے، تو یہ عمل “Crimes against Humanity” یعنی انسانیت کے خلاف جرائم ۔ میں شمار کیا جاتا ہے اس یہ واضح ہوتا کہ بلوچ قوم کا پاکستانی ظلم کے خلاف مزاحمت عالمی اصولوں کے تحت بلکل جائز ہے اگر کوئی ریاست ایک قوم کی زندگی، زمین، زبان، اور بقا کو مسلسل نشانہ بنائے، تو پھر اس قوم کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حق حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کے لیے آواز بلند کرے۔
یہ آزادی کی تحریکیں “بغاوت” نہیں ہوتیں بلکہ مظلوم اقوام کی بقاء کی لڑائیاں ہوتی ہیں اگر بلوچ قوم نے یہ جنگ جاری نہیں رکھی تو بلوچستان کا مستقبل بھی چاغی کے پہاڑوں جیسے ہوگے جہاں صرف بربادی ہے ہمارے پاس جہدوجہد کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے بلوچ اگر اپنی سرزمین پر ایٹمی حملے کے بعد بھی خاموش رہے، تو وہ مر جائیں گے مگر بلوچ جانتے ہیں کہ خاموشی زہر ہے، اور آواز زندگی
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں