بلوچستان میں عدالتیں حکومت کے سامنے مکمل بے اختیار اور بے بس ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

33

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کو 41 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ اس دوران 300 سے زائد کارکنان کو غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا، جن میں سے کچھ کو رہا کیا گیا، لیکن ایک بڑی تعداد تاحال جیلوں میں قید ہے۔ سندھ میں اس وقت 4 افراد قید ہیں، جبکہ کوئٹہ کی مختلف جیلوں، خصوصاً ہدہ جیل، میں 200 سے زائد افراد محبوس ہیں۔

بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان اور سندھ کی اعلیٰ عدالتوں میں ان افراد کی رہائی کے لیے مختلف درخواستیں دائر کی گئیں۔ عدالتوں نے بعض درخواستوں پر رہائی کے احکامات بھی جاری کیے، جن میں بیبو اور گلزادی بلوچ جیسے نمایاں نام شامل ہیں۔ تاہم ان عدالتی احکامات کے باوجود متعلقہ افراد کو تاحال رہا نہیں کیا گیا۔

مزید کہاکہ جمعے کے روز عدالت نے واضح ہدایت دی تھی کہ جن افراد پر کوئی الزام نہیں ہے، انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ لیکن آج بدھ تک حکومتی وکلاء کسی بھی فرد کے خلاف کوئی قانونی یا شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے باوجود ریاستی ادارے عدالت کے احکامات کو نظرانداز کر رہے ہیں، جس سے عدالت کی کمزوری اور بے بسی آشکار ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ صورت حال نہ صرف عدلیہ کی ناتوانی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ حکومت کسی قانونی جواز کے بغیر بلوچ کارکنان کو قید میں رکھے ہوئے ہے۔ اس ظلم کا شکار صرف بالغ افراد ہی نہیں، بلکہ 16 سالہ نابالغ بچے بھی ہیں، جنہیں بغیر کسی الزام کے قید رکھا گیا ہے۔

بیان میں کہا ہے کہ ریاست کا تری ایم پی او (3MPO) قانون کا غلط استعمال اور عدالتوں کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بلوچستان میں آئین و قانون کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ تمام فیصلے غیر قانونی، غیر آئینی اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کے تحت کیے جا رہے ہیں۔

بیان کے آخر میں کہا ہے کہ ہم عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور پاکستان کے باشعور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ریاستی جبر، عدالتی خاموشی، اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ بلوچ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اب مزید خاموشی سے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔