بلوچ نیشنل موومنٹ کے جاری ایک بیان کے مطابق پارٹی کے محکمہ انسانی حقوق پانک نے 29 مئی 2025 کو ایک آن لائن پریس کانفرنس کا انعقاد ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کیا جس کی میزبانی بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی رکن اور پانک کے ممبر ریاض بلوچ نے کی، ان کے معاون محکمہ پانک کے کوآرڈینیٹر حاتم بلوچ تھے۔جبکہ خطاب محکمہ کے سربراہ ڈاکٹر ناظر نور بلوچ نے کیا۔ اس پریس کانفرنس میں بلوچستان میں جاری ریاستی جبر، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے متعلق تفصیلات پیش کی گئیں۔
بیان کے مطابق ڈاکٹر ناظر نور بلوچ نے کہا کہ گزشتہ دس دنوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سمیت کراچی میں بھی متعدد بلوچ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جن میں سے کئی کی لاشیں بعد ازاں مختلف مقامات سے برآمد ہوئیں۔ ان تمام واقعات کی دستاویزی شہادتیں محکمہ کے پاس موجود ہیں۔
پریس کانفرنس میں ماہ مئی کے آخری عشرے میں بلوچستان بھر میں ریاستی درندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کہ 19 مئی کو لیویز اہلکار یونس کو گھر سے اٹھا کر اگلے روز جعلی مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ 21 مئی کو نوجوان ساجد کو اغوا کے بعد قتل کر کے لاش پھینکی گئی۔
22 مئی کو بارکھان کے علاقے بغاو سے شیر جان کھیتران کو جبری لاپتہ کر کے زیر حراست تشدد کے باعث قتل کیا گیا۔ لاش 28 مئی کو لواحقین کے حوالے کی گئی اور احتجاج سے روکا گیا۔
23 مئی کو حنیف ولد عزیز کو صبح 5 بجے گھر سے اٹھا کر بیس منٹ بعد قتل کر دیا گیا۔
24 مئی کو صحافی لالا لطیف کو بچوں کے سامنے گولی مار دی گئی۔ وہ پہلے بھی جبری گمشدگی کا شکار رہ چکے تھے۔ ان کے بھائی خالد نوید (لیکچرار) کو بھی اغوا کیا گیا تھا۔ 28 فروری 2025 کو لطیف بلوچ کے خاندان کے 10 افراد کو اغوا کیا گیا، جن میں سے 7 کی لاشیں 7 مارچ کو پھینکی گئیں۔ راشد بلوچ (لطیف کے بھائی) کو 2011 میں اغوا کر کے بعد ازاں قتل کیا گیا۔
26 مئی کو غوث بخش کو ملٹری کیمپ بلا کر اگلے دن مردہ حالت میں پھینک دیا گیا۔ 26 مئی کو تین جبری لاپتہ افراد کی لاشیں ضلع دُکی میں پھینکی گئیں۔ ان افراد کو مسلح تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
دو نامعلوم لاشیں نوشکی سے برآمد ہوئیں۔
27 مئی کو آواران میں فوجی آپریشن کے دوران گھر گھر تلاشی، تشدد اور فائرنگ کی گئی۔ نتیجتاً ایک خاتون اور ایک نوجوان ہلاک جبکہ ایک خاتون زخمی ہوئیں۔
27 مئی کو ایک گھر پر حملہ کیا گیا، جس میں نوجوان نعیم اور بی بی حوری ہلاک جبکہ ایک بزرگ خاتون زخمی ہوئیں۔
اس خاندان کو 10 سال قبل بھی اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
گزشتہ ایک ہفتہ: بارکھان سے سات افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں، جو پہلے اغوا کیے گئے تھے اور بعد ازاں قتل کر کے مسلح تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
28 مئی: تربت کے علاقے آبسر میں ڈیتھ اسکواڈ نے فائرنگ کر کے مسافر بلوچ کو قتل کیا۔
28-29 مئی کی درمیانی شب: کوئٹہ سول ہسپتال سے لیبارٹری سائنس کی طالبہ اور پولیو کی مریضہ ماہ جبین بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
پانک کے سربراہ نےان واقعات کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی قرار دیا گیا، جن میں شامل ہیں:
حقِ زندگی
حقِ تحفظ
آزادیِ صحافت
جبری گمشدگی سے تحفظ
ماورائے عدالت قتل کی ممانعت
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوب دہی
پریس کانفرنس کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن بھی منعقد ہوا جس میں مختلف شرکاء نے سوالات کیے۔ جوابات ڈاکٹر ناظر نور بلوچ اور حاتم بلوچ نے دیے۔
محکمہ انسانی حقوق پانک نے میڈیا، انسانی حقوق کے اداروں، سول سوسائٹی اور عالمی ضمیر سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سنجیدگی سے توجہ دیں اور متاثرہ افراد کی داد رسی اور تحفظ کو ممکن بنائیں۔