بلوچستان: مزید 3 افراد جبری لاپتہ

135

کوئٹہ، پسنی اور نوشکی سے جبری گمشدگی کے مزید تین واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کی تحصیل پسنی سے اطلاع ہے کہ پاکستانی فورسز نے سرتاج ولد صالح محمد کو ایک بار پھر جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل، 28 جولائی 2015 کو سرتاج اور اُس کے بھائی مراد بخش صالح کو لاپتہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں سرتاج بازیاب ہو گیا تھا، تاہم مراد بخش تاحال لاپتہ ہے۔ تازہ واقعے میں، 6 مئی 2025 کو سرتاج صالح کو دوبارہ جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا ہے۔

لواحقین نے اُن کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرتاج اپنی بوڑھی والدہ اور لاپتہ بھائی کے بچوں کا واحد سہارا ہے۔ سرتاج کی والدہ نے بلوچ قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ اُس کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں۔

نوشکی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، 14 سالہ شریف اللّٰہ ولد طاؤس خان، سکنہ کلی قادرآباد، کو پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ شریف اللہ چھٹی جماعت کا طالبعلم ہے، جسے 18 اپریل کی رات تقریباً 3 بجے سرکاری وردی میں ملبوس افراد نے اُس کے گھر سے اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ تاحال اُس کی کوئی خبر نہیں ہے۔

اسی طرح، کوئٹہ کے رہائشی عبدالفاروق ولد محمد عظیم ساتکزئی کے لواحقین نے بتایا ہے کہ انہیں 13 اپریل 2025 کو کوئٹہ کے علاقے لیس ڈگاری سے پاکستانی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ اہلِ خانہ کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔

لواحقین نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ عبدالفاروق کی فوری اور بحفاظت بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں حالیہ برسوں کے دوران جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں اضافے کے باعث لواحقین شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ جبری لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کا مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو اگر ریاستی تحویل میں لیا گیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ تاہم، اکثر اوقات ریاستی ادارے انہیں طویل گمشدگی کے بعد جعلی مقابلوں میں قتل کر دیتے ہیں۔