بلوچستان :جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری، مزید تین افراد لاپتہ

46

پاکستانی فورسز نے تین افراد کو حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

رواں مہینے 6 مئی کو پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تجابان میں کارروائی کرتے ہوئے محمد شفیع بلوچ ولد لہداد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا، اسی روز مذکورہ علاقے سے ایک اور کاروائی میں فورسز نے دولت بلوچ ولد بادل بلوچ کو بھی جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔

تازہ ترین واقعے میں گذشتہ روز 7 مئی کو پاکستانی فورسز نے کیچ کے تحصیل تمپ کے علاقے کوہد میں ایک گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے وہاں سے ریاض احمد ولد ابراہیم بلوچ کو حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے

یاد رہے کہ ریاض احمد اس سے قبل بھی جبری گمشدگی کا شکار رہ چکے ہیں، تاہم وہ بعد ازاں بازیاب ہو گئے تھے جنھیں ایک بار پھر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے پانک نے ان جبری گمشدگیوں کی تصدیق کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

پانک نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لیں اور ان جبری گمشدگیوں کو رکوانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز بھی بلوچستان کے مختلف اضلاع کوئٹہ، پسنی اور نوشکی سے جبری گمشدگی کے مزید تین واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کی تحصیل پسنی سے پاکستانی فورسز نے سرتاج ولد صالح محمد کو دوسری مرتبہ جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔

زرائع کے مطابق اس سے قبل، 28 جولائی 2015 کو سرتاج اور اُس کے بھائی مراد بخش صالح کو لاپتہ کیا گیا تھا، بعد ازاں سرتاج بازیاب ہو گیا تھا تاہم مراد بخش تاحال لاپتہ ہے تازہ واقعے میں 6 مئی 2025 کو سرتاج صالح کو دوبارہ جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہے۔

گذشتہ روز دی بلوچستان پوسٹ کو جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ملنے والی رپوٹ کے مطابق رواں سال 18 اپریل کو پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے ضلع نوشکی سے چھٹی جماعت کے ایک کمسن نوجوان شریف اللہ کو جبری لاپتہ کردیا ہے جبکہ اسی طرح کوئٹہ کے رہائشی عبدالفاروق ولد محمد عظیم ساتکزئی کے لواحقین نے بتایا ہے کہ انہیں 13 اپریل 2025 کو کوئٹہ کے علاقے لیس ڈگاری سے پاکستانی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔