بلوچستان ایک ایسا خطہ بن چکا ہے جہاں زندگی نہیں، بلکہ خوف بسایا گیا ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی

32

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ریاستی جبر اپنے عروج پر ہے، اور اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کو نشانہ بنانا کسی وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم ریاستی پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد مزاحمت کی آوازوں کو مستقل طور پر خاموش کرنا ہے۔

بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ بن چکا ہے جہاں زندگی نہیں، بلکہ خوف بسایا گیا ہے۔ چیک پوسٹوں، کرفیوؤں اور فوجی قافلوں میں گھری عوام کی مرضی پر نہیں بلکہ بندوق کے سائے میں فیصلے ہوتے ہیں۔ جبری گمشدگیاں، حراستی قتل، اور روزمرہ کی تذلیل یہ سب اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔

مزید کہا ہے کہ اسی جبر کے خلاف ایک اجتماعی ردعمل کے طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جنم لیا۔ یہ کوئی روایتی سیاسی جماعت نہیں، بلکہ سوگ سے جنم لینے والی ایک تحریک ہے، جس نے لاپتہ افراد کی ماؤں، بیٹیوں اور بیویوں کو زبان دی، اور اجتماعی دکھ کو اجتماعی مزاحمت میں بدلا۔

بیان میں کہا ہے کہ تاہم اب اسی مزاحمت کو کچلنے کے لیے BYC کے رہنماؤں کو بلاجواز گرفتار کیا جا رہا ہے۔ انہیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے حراست میں رکھا گیا، اور دوران حراست جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اپنے احتجاج کے طور پر انہوں نے پانچ روزہ بھوک ہڑتال کی، جو اس وقت ختم کی گئی جب جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں نے ان سے اپیل کی کہ وہ ان کے لیے زندہ رہیں۔

بیان کے آخر میں کہا ہے کہ بلوچستان بھر میں عوام ان گرفتاریوں اور جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، لیکن ریاستی ادارے میڈیا کو بھی سنسر کر کے ان آوازوں کو دبانے میں مصروف ہیں۔ نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی میڈیا کی مجرمانہ خاموشی اس ظلم کو مزید تقویت دے رہی ہے۔
یہ کریک ڈاؤن صرف چند افراد کو خاموش کرانے کی کوشش نہیں، بلکہ ایک پوری سچائی، ایک پوری تحریک کو مٹانے کی سازش ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام رہنماؤں کو فوری طور پر رہا کیا جائے، جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے؛
اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر توجہ دی جائے، میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔