بلوچستان: اپریل میں 151 افراد جبری لاپتہ، 23 ماورائے عدالت قتل — پانک رپورٹ

10

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے شعبے پانک نے اپنی تازہ ترین ماہانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اپریل 2025 کے دوران بلوچستان بھر میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اپریل میں کم از کم 151 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جبکہ 23 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

پانک کے مطابق یہ اعداد و شمار بلوچستان کے 18 اضلاع سے موصول ہونے والے مصدقہ واقعات پر مبنی ہیں جن میں واضح طور پر ایک منظم ریاستی پالیسی کے تحت بلوچ آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ضلع کیچ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع رہا جہاں 53 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اس کے بعد گوادر میں 19، کوئٹہ میں 18، ڈیرہ بگٹی میں 13، پنجگور میں 8، آواران میں 7، اور دیگر اضلاع جیسے کہ بارکھان، سیبی، مستونگ، لسبیلہ، خاران، نوشکی، چاغی اور سوراب میں بھی درجنوں افراد جبری گمشدگی کا شکار ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپریل میں 50 افراد کو فوجی اذیت گاہوں سے رہا کیا گیا تاہم 23 افراد کو دوران حراست یا اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا، ان میں عبدالمالک بلوچ کی لاش 6 ماہ بعد خضدار سے ملی، شاہ نواز، ظہور احمد اور حبیب بلوچ کو آواران میں قتل کیا گیا جبکہ ساحل بلوچ جیسے معصوم بچے کو پسنی میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا۔

پانک کے مطابق اسی طرح بہادر شفیع اور ان کے تین رشتہ داروں کو پنجگور میں ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز نے نشانہ بنایا اور نبیل بلوچ جو ایک طالبعلم اور صحافی تھے کو تمپ کیچ میں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ڈوکی میں بھی کئی بلوچوں کو “سرمچار” ظاہر کر کے جعلی مقابلوں میں مارا گیا۔

پانک کی رپورٹ پاکستانی فوج اور اس کے ماتحت اداروں کو ان واقعات کا براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی قید خانوں کی لوکیشنز خفیہ رکھی جاتی ہیں اہل خانہ اور وکلاء کو کسی قسم کی رسائی نہیں دی جاتی اور ڈیتھ اسکواڈز کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جو مکمل طور پر قانون سے بالاتر ہو کر کام کررہے ہیں۔

پانک نے عالمی اداروں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کروائیں جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو انصاف فراہم کریں اور پاکستان پر زور دیں کہ وہ جبری گمشدگیوں سے متعلق بین الاقوامی کنونشنز پر عملدرآمد یقینی بنائے۔

رپورٹ میں انتباہ دیا گیا ہے کہ اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال مزید ابتر ہو جائے گی بلکہ یہ ظلم و جبر پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔