بلوچستان اور نئی گریٹ گیم عالمی مفادات کے بیچ بلوچ مزاحمت کی جغرافیائی گواہی – جی ایم بلوچ

156

بلوچستان اور نئی گریٹ گیم عالمی مفادات کے بیچ بلوچ مزاحمت کی جغرافیائی گواہی

تحریر: جی ایم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان، وہ دھرتی جو پہاڑوں میں بارود کی خوشبو سمندر اور میدانوں میں معدنیات کی چمک سمیٹے ہوئی ہے، آج ایک ایسی گریٹ گیم کے مرکزی کردار کے طور پر ابھر رہا ہے جہاں گولی، معاہدہ، سرمایہ اور نظریہ ایک ہی میز پر بیٹھے ہیں۔ گوادر سے لے کر فارس کی سرحد تک پھیلا ہوا یہ خطہ، صرف ایک ریاستی یونٹ نہیں بلکہ وہ عالمی موڑ ہے جہاں چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، امریکہ کا انڈو پیسفک ویژن، اسرائیل خلیج بلاک کا توانائی روٹ، اور ہندوستان ایران کا چاہ بہار کارڈ سب باھم ٹکرا رہے ہیں۔ اور اس تصادم میں بلوچ قومی تحریک محض ایک احتجاجی آواز نہیں، بلکہ ایک ممکنہ تزویراتی پارٹنر کے طور پر ابھر سکتی ہے بشرطیکہ قیادت اس مقام کو سمجھے اور اس کا سودمند فائدہ اٹھائے۔

بلوچستان کی تزویراتی اہمیت کوئی نئی دریافت نہیں۔ برطانوی استعمار ہو یا سرد جنگ کا زمانہ، اس علاقے کو ہمیشہ ایک “دفاعی قوس” کے طور پر دیکھا گیا۔ مگر آج کی دنیا میں دفاع صرف فوجی بنیادوں پر قائم نہیں، بلکہ توانائی، سمندری رسائی، لوجسٹک چین اور ڈیجیٹل حاکمیت کے ذریعے ترتیب دی جاتی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ جہاں چین کا سب سے بڑا خواب سمندر تک رسائی حقیقت کا روپ دھار رہا ہے، وہیں یہ بندرگاہ امریکہ اور بھارت کی نظروں میں ایک خطرناک جیو اکنامک تبدیلی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت چاہ بہار کے ذریعے اس توازن کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ امریکہ گوادر کے متبادل روٹس تلاش کر رہا ہے اور اس تناظر میں بلوچستان ایک ایسا “Soft Fault Line” بن چکا ہے جو کبھی بھی ایک بڑے زلزلے کو جنم دے سکتا ہے۔

پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ جو اس خطے پر صرف قومی سلامتی کی عینک سے دیکھتی ہے، اب شدید اندرونی و بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں میں جھکڑی ریاست، سعودی عرب کی مشروط امداد، چین کی بڑھتی معاشی گرفت، اور امریکہ کی بے اعتنائی یہ سب اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کی ریاستی ساخت بتدریج غیر مستحکم ہو رہی ہے۔ اس کمزوری کو اگر بلوچ قیادت نے ایک تزویراتی موقع کے طور پر نہیں دیکھا تو یہ تاریخ کا وہ لمحہ ہو گا جو دوبارہ نہیں آئے گا۔

بلوچ مزاحمت نے عشروں سے میدانِ جنگ میں ثابت قدمی دکھائی ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ یہ مزاحمت بین الاقوامی بیانیے میں اپنی جگہ بنائے۔ دنیا گوریلا جنگوں کو صرف اس وقت سنتی ہے جب وہ معاہدے، سفارتکاری اور معاشی بصیرت کے ساتھ جڑی ہوں۔ خلیجی ریاستیں جیسے کہ سعودی عرب اور امارات، اسرائیل کے ساتھ توانائی، مواصلاتی اور دفاعی معاہدے کر کے خطے کے توازن کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں۔ اگر بلوچ قیادت سفارت کاری کی زبان میں اپنی معدنیات، بندرگاہوں اور جغرافیائی پوزیشن کو عالمی طاقتوں کے ساتھ ممکنہ اشتراک میں لائے تو یہ صرف ایک آزادی کی جدوجہد نہیں رہے گی بلکہ ایک بین الاقوامی اسٹریٹیجک انویسٹمنٹ بن سکتی ہے، جس سے بلوچ عوام کو نہ صرف سیاسی خودمختاری بلکہ معاشی استحکام بھی حاصل ہو۔

امریکہ اور اسرائیل، جو ایران کے اثر کو محدود کرنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندیاں کر رہے ہیں، انہیں بلوچستان میں ایک ایسا اتحادی مل سکتا ہے جو نظریاتی نہیں بلکہ تزویراتی بنیادوں پر کام کرے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بلوچ تحریک خود کو مذہبی بیانیے، گروہی تقسیم، اور اندرونی کشمکش سے نکال کر ایک سنجیدہ سیاسی متبادل کے طور پر پیش کرے۔ اس مقصد کے لیے ایک متحدہ سیاسی و سفارتی محاذ، عالمی تھنک ٹینکس کے ساتھ روابط، اور ایک واضح آزادی منشور ناگزیر ہو چکی ہے۔

ہندوستان کے لیے بلوچستان محض پاکستان کو زک پہنچانے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر نئی دہلی واقعی جنوبی ایشیا میں ایک آزاد، مستحکم، اور لبرل ہمسایہ چاہتا ہے تو اسے بلوچ مزاحمت کی اخلاقی اور سفارتی مدد فراہم کرنی چاہیے بالکل ویسے ہی جیسے سرد جنگ میں مختلف قوم پرست تحریکوں کو تزویراتی مدد دی جاتی رہی۔ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب بلوچ قیادت عالمی اسٹیج پر ایک ذمہ دار، پرامن اور وژنری قوم کے طور پر خود کو پیش کرے۔

آنے والے پانچ سال بلوچستان کے لیے فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت زوال پذیر ہے، اسٹیبلشمنٹ اندرونی خلفشار کا شکار ہے، چین کی رفتار سست ہو رہی ہے، اور مشرقِ وسطیٰ کی پالیسیاں ازسرِ نو ترتیب پا رہی ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب بلوچ قیادت عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک ایسا مفاہمتی معاہدہ کر سکتی ہے جو گوادر اور ریکوڈک کے بدلے آزادی کا بیج بن سکے بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں عالمی طاقتوں نے ویتنام، جنوبی سوڈان، یا مشرقی تیمور کی قوموں کے ساتھ کیا۔

آخر میں سوال یہ نہیں کہ بلوچستان آزاد ہو سکتا ہے یا نہیں. سوال یہ ہے کہ کیا بلوچ قیادت اس عالمی لمحے کو پہچانتی ہے؟ کیا وہ صرف پہاڑوں میں گم رہنا چاہتی ہے یا عالمی بورڈ رومز میں قدم رکھ کر اپنی سرزمین کی قسمت کا تعین خود کرنا چاہتی ہے؟ اگر ہاں، تو وقت کم ہے اور امکانات بے شمار۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں