بارکھان: فورسز کیمپ سے 3 افراد جبری لاپتہ

34

بلوچستان کے علاقے بارکھان سے پاکستانی فورسز نے تین افراد کو اس وقت جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا جب انہیں فورسز کیمپ میں حاضری کیلئے بلایا گیا۔

کھیتران قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پاکستانی فورسز کے صوبیدار کی جانب سے فورسز کیمپ میں حاضر ہونے کیلئے کہا گیا جہاں انہیں حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

علاقائی ذرائع کے مطابق احمد جان بلوچ ولد جمالدین کو 15 اپریل کو، اسلم ولد لعل محمد اور صحبت خان ولد محمد جان کو 26 اپریل کو کیمپ سے لاپتہ کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے اس سے قبل بستی گوزو صدرانی احمد جان کے گھر سے ان کے والد جمالدین کو چھاپہ مار کر فورسز نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا بعدازاں 13 اپریل اور پھر 15 اپریل کو احمد جان کے پیش ہونے پر ان کے والد کو چھوڑ دیا گیا تاہم احمد جان  15 دنوں سے لاپتہ ہے۔

علاقائی ذرائع نے مزید بتایا کہ 24 اپریل کو پاکستانی فورسز نے بارکھان کے بستی گوزو صدرانی سے صحبت خان کے والد محمد جان اور اسلم کے چچا میر خان کو ان کے گھر سے اٹھایا اور بعدازاں 26 تاریخ کو صحبت اور اسلم کے فورسز کیمپ میں پیش ہونے پر ان کو چھوڑ دیا گیا ہے تاہم اسلم اور صحبت کو بھی فورسز نے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

بلوچستان میں گذشتہ روز جبری گمشدگیوں کے 13 واقعات رپورٹ ہوئے تھیں جن میں دو افراد بعدازاں رہا کردیئے گئے۔ ان واقعات میں پسنی، تربت، سبی اور ڈیرہ بگٹی کے علاقے متاثر رہیں۔

بارکھان جیسے واقعات کو بلوچ سیاسی و سماجی حلقے اجتماعی سزا کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اجتماعی سزا کے طور پر سیاسی کارکنان کے والدین سمیت دیگر رشتہ داروں کو جبری گمشدگیوں، ٹارگٹ کلنگ یا دوسری نوعیت کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد بھی 25 دنوں سے زائد جبری طور پر لاپتہ ہیں۔ پاکستانی خفیہ اداروں نے ان کے والد کی رہائی کو خاتون ایکوسٹ کی گرفتاری دینے یا بی وائی سی سے مستعفی ہونے سے مشروط کی ہے۔