اکیسویں صدی کے دہانے پر پاکستان کی زبان فکری زوال یا قابض کی پہچان
تحریر: میر ساول بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا تیزی سے سائنسی ترقی، سماجی آزادی، اور فکری تنوع کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اقوامِ عالم مکالمے تنقید اور اختلاف رائے کو جمہوری اقدار کی بنیاد مانتی ہیں اس کے برعکس پاکستان میں ریاستی ادارے اب بھی ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جو نہ صرف فکری پسماندگی کی عکاس ہے بلکہ اس ریاستی ذہنیت کی نمائندگی کرتی ہے جو اختلاف کو جرم، تنقید کو غداری اور سوال کو فتنہ سمجھتی ہے۔
اصطلاحات جیسے “فتنہ الخوارج “فتنہ الہند” “غدار وطن” اور “جہنم واصل” صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک خاص ریاستی رویے کی نمائندہ زبان ہے جو طاقت کے زور پر مخالف آوازوں کو دبانے کا جواز فراہم کرتی ہے یہ زبان نہ صرف عوام کے خلاف استعمال کی جاتی ہے بلکہ علمی سیاسی اور صحافتی حلقوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔
ریاست کے مخالفین یا تنقیدی آوازوں کو مذہبی اور قومی بنیادوں پر “فتنہ” قرار دینا صرف ایک سادہ لیبلنگ نہیں بلکہ ایک منظم بیانیہ ہے جس کا مقصد ریاستی تشدد کو قابلِ قبول بنانا ہوتا ہے۔
اس زبان کی پشت پر طاقتور عسکری اور انٹیلیجنس ادارے موجود ہوتے ہیں جو اسے میڈیا نصابِ تعلیم، اور عوامی بیانیے کا حصہ بناتے ہیں۔ اس ریاستی زبان کے اثرات سب سے زیادہ اُن خطوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں مزاحمت کی تاریخ موجود ہے جیسے بلوچستان جہاں سیاسی کارکنوں طلباء اور صحافیوں کو ریاستی جبر کا سامنا ہے۔
بلوچستان میں ریاستی بیانیے کے تحت مقامی آبادی کو بارہا “غدار” یا “را “کے ایجنٹ یا دہشت گرد جیسے القابات دیے جاتے ہیں۔ یہ اصطلاحات نہ صرف ان افراد کی شناخت، اور انسانیت کو رد کرتی ہیں بلکہ ان کے خلاف طاقت کے استعمال کو بھی جائز بنا دیتی ہیں
یہ طرزِ عمل بین الاقوامی انسانی حقوق کی اصولوں سے متصادم ہے۔ دنیا آج انسانی حقوق، خود ارادیت، اور آزادیِ اظہار کو تسلیم کرتی ہے جبکہ پاکستان کی ریاست اب بھی ان اصولوں کی مخالفت کرتی دکھائی دیتی ہے
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب قابض ریاستیں اپنے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو زبان تشدد اور غداری جیسے الزامات سے خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہاں سماجی ہم آہنگی فکری ترقی اور سیاسی استحکام ممکن نہیں رہتا۔ بلوچ عوام نے کئی دہائیوں سے اس رویے کا سامنا کیا ہے۔ وہ مزاحمت بھی کر رہے ہیں اور اپنے حق کے لیے آواز بھی بلند کر رہے ہیں لیکن اس کے جواب میں ریاست نے صرف ایک بیانیہ اختیار کیا ہے خاموشی یا سزا۔
تاہم آج کا بلوچ نوجوان اس دقیانوسی، جابرانہ اور فرسودہ ریاستی زبان سے متاثر نہیں ہوتا۔ وہ دنیا سے جڑا ہوا ہے تعلیم یافتہ ہے اور اپنے وقت اور حالات کے شعور سے آگاہ ہے بلوچ جانتا ہے کہ پاکستان کا بیانیہ خود اس کے ماضی کا قیدی ہے جو اس کے نام نہاد وجود کے لیے ضروری ہے جبکہ بلوچ قوم اپنی سوچ جدوجہد اور علم کے ساتھ عالمی دنیا کا حصہ ہے اور بلوچ کا نوجوان نسل انٹرنیٹ اور سچائی تک رسائی رکھتی ہے اور وہ یہ زبان تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
پاکستان جس نام سے ہمیں پکارے حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان ایک دن آزاد ہوگا اور دنیا بھی یہ بات اچھی طرح سے جانتی کہ بلوچ قوم کا یہ جنگ کوئی اندرونی بغاوت نہیں بلکہ ایک تاریخی اور جائز جنگِ آزادی ہے بلوچ عوام پاکستان کے شہری نہیں بلکہ ایک علیحدہ قومی و جغرافیائی شناخت رکھتے ہیں۔ اُن کی جدوجہد صرف ظلم کے خلاف نہیں بلکہ اپنی کھوئی ہوئی آزادی واپس لینے کے لیے ہیں۔ بلوچ آزادی تحریک کا یہ موقف اقوامِ متحدہ کے چارٹر انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور نوآبادیاتی تسلط کے خلاف عالمی جدوجہد میں موجود ہے۔
پاکستان کی جانب سے ‘فتنہ’ یا ‘غداری’ جیسے الفاظ صرف اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ بلوچ قوم کی جائز آواز کو دبا دیا جائے مگر یہ اصطلاحات بلوچ شعور، عزم اور قربانیوں کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ ترقی یافتہ اس صدی کے دہانے میں بھی اگر کوئی ریاست اب بھی ہمیں “جہنم واصل یا فتنہ الہند جیسے القابات سے یاد کر رہی ہے تو یہ اس کی فکری اخلاقی اور سیاسی ناکامی کے واضح ثبوت ہے اور یہ ریاستی اور فوجی زبان دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو مزید گراتی ہے کیونکہ عالمی دنیا مذہبی و عسکری بیانیوں سے خوفزدہ ہو چکی ہے۔
دنیا کو یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان میں اختلاف رائے کا مطلب کیا ہے اور وہ قومیں جو اپنی تاریخ انصاف برابری اور آزادی پر یقین رکھتی ہیں اُنہیں ایسے بیانیے کو چیلنج کرنا چاہیے جو ظلم کو زبان اور جبر کو قانون بنا دے اور انسانیت پر ہمدردی رکھنے والے تنظیموں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ریاست کی زبان اور سوچ اکیسویں صدی میں بھی کیا ہے آج کے جدید دور میں جب دنیا مکالمہ ڈیجیٹل آزادی اور انسانی حقوق کی طرف جا رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان کی فوج اور اس کا زیر اثر میڈیا اب بھی “جہنم واصل” کہنے والی پوسٹس سے مخاطب ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں