بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان نے بلوچ نسل کشی کو محض جاری رکھنے کا نہیں، بلکہ اسے وحشت انگیز حد تک تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں بلوچ نسل کشی اور اجتماعی سزا نئی حدوں کو چھو رہی ہیں۔ سست رفتار نسل کشی کے جاری عمل کو پاکستان نے یکدم تبدیل کرکے بلوچ سر زمین کو جہنم بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اس وحشت میں پاکستان ہمیں صرف لاشیں نہیں دیتی، بلکہ نسلوں کو گھائل کر کے ان کے حوصلوں کو روندنے کی کوشش کرتی ہے۔ مگر ہمارا پیغام واضح ہے کہ قومی آزادی کے لیے ہم اس قیمت کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں۔
چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ چند ہفتوں میں پے در پے جعلی مقابلوں میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کو قتل کیا جا رہا ہے۔ صرف کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں چار ماہ کے اندر چار الگ الگ جعلی مقابلوں میں 13 لاپتہ افراد کو قتل کیا گیا۔ ان کے نام، ان کی شناخت، ان کی بے گناہی، سب کچھ ہمارے پاس ہے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو برسوں سے جبری لاپتہ تھے اور جن کی مائیں دن رات انصاف کی دہائی دے رہی تھیں۔ ان جعلی مقابلوں کے علاوہ، صرف بزدار قبیلے سے 16 نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ شال سے لے کر گوادر تک، آواران سے نوشکے تک، ہر علاقے میں ظلم و تشدد سے انسانیت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہم چند دنوں کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو ایک بھیانک صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ مشکئے میں آٹھ نوجوانوں کو پاکستانی فوج نے گھروں سے اٹھاکر ان کی لاشیں پھینک دیں۔ مشکئے ہی میں ماضی میں دو دفعہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ اور اذیت کے بعد بازیاب صحافی لالا لطیف بلوچ کو فوج نے گھر پر چھاپے کے دوران اہلخانہ کے سامنے قتل کردیا۔ آواران کے علاقے مالار مچی میں ایک ہی خاندان پر پاکستانی فوج نے دو دنوں میں دو حملے کیے۔ فوج نے نوجوان نعیم بلوچ اور بی بی ھوری بلوچ کو گھر میں گھس کر قتل کردیا، جبکہ بی بی دادی بلوچ سمیت کئی لوگوں کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا۔ اسی طرح جھاؤ میں دو نوجوانوں کو گھر سے اٹھا کر قتل کرکے لاشیں پھینک دیں۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان یونیورسٹی کی طالبہ ماہ جبین بلوچ کو رات کے اندھیرے میں فوج نے اسپتال کے سول ہاسٹل سے اٹھاکر جبری گمشدہ کیا۔ طالبہ ماہ جبین پولیو زدہ ہیں۔ اس کے بھائی کو پہلے ہی اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔ طارق بلوچ کو نوشکے سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور ان کا کوئی سراغ نہیں۔ یہ تمام واقعات ریاست کے بلوچ نسل کشی اور اجتماعی سزا کا حصہ ہیں جو بلوچ قوم کو خاموش کرنے، ان کی تاریخ کو مٹانے اور ان کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے روبہ عمل لایا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ پاکستان نہ صرف فوجی جبر کے ذریعے بلوچ قوم کو زیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی مذہبی ہتھیار کو نئی حکمت عملی کے تحت بلوچ قوم کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بھی روبہ عمل ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف عملی اقدامات کریں۔ خاص طور پر یو این ورکنگ گروپ آن انفورسڈ ڈس اپیئرنسز کو فوری مداخلت کرنی چاہیے، کیونکہ خاموشی، پاکستان کو مزید سنگین جرائم کی موقع فراہم کر رہی ہے۔
چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بلوچ مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور جوان جو مسلسل احتجاج کر رہی ہیں، ہماری قومی مزاحمت کی بلند ترین علامت ہیں۔ پاکستانی ریاست ان احتجاجوں کو کچلنے کے لیے نہ صرف اپنی فورسز بلکہ فوجی ڈیتھ اسکواڈز اور مذہبی گروہوں کو استعمال کر رہی ہے، جو اس کی اخلاقی اور سیاسی پستی اور ناکامی کا واضح ثبوت ہیں۔ گوکہ ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے، مگر ہم جھکنے والے نہیں۔ ریاست اپنی حیوانیت کو اس نہج پر لانا چاہتی ہے جس کا شاید کوئی تصور نہ کرے لیکن بلوچ قوم نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی قومی آزادی کی خاطر یہ ہم قیمت ادا کریں گے۔
بیان کے آخر میں کہاکہ بلوچ نیشنل موومنٹ اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ بلوچ سرزمین اور عالمی سطح پر قومی تحریک کو سیاسی، اور سفارتی سطح پر آگے لے جائیں گے۔ ہم انسانی وقار، قومی آزادی اور قومی بقا کے لیے اپنی جدوجہد کو مزید مؤثر اور پُرعزم انداز میں جاری رکھیں گے۔