بلوچستان کے ضلع آواران میں گزشتہ شب ایک خاتون سمیت دو افراد کی قتل کے خلاف آج شہر بھر میں مکمل ہڑتال کی گئی، تمام کاروباری مراکز اور دکانیں بند رہیں جبکہ عوامی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق آواران کے علاقے مالار مچھی میں گزشتہ رات تقریباً ایک بجے پاکستانی فورسز نے کئی گھروں پر چھاپے مارے جس دوران مقامی افراد کی مزاحمت پر فورسز نے عام آبادی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں نعیم بلوچ ولد سنجر بلوچ اور حوری بنت قاسم جانبحق ہو گئے جبکہ ایک ضعیف خاتون دادی بلوچ شدید زخمی ہو گئے تھے۔
واقعے کے بعد بلوچ وومن فورم نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ہڑتال کی کال دی جس پر عوام نے بھرپور عمل کرتے ہوئے احتجاجاً شہر بند رکھا۔
اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچ وومن فورم نے کہا ہے کہ رواں سال کے آغاز سے آواران میں ماورائے عدالت قتل کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں اور صرف ایک ہفتے کے دوران یہ پانچواں واقعہ ہے۔
ان کے مطابق بلوچستان میں ریاستی اداروں کو مکمل چھوٹ دی گئی ہے اور وہ بغیر کسی قانونی جواز کے طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بھی واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ نعیم بلوچ اور ان کی خالہ حوری بی بی کو پاکستانی فورسز نے فائرنگ کرکے قتل کیا، کمیٹی کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں کہ اس خاندان کو نشانہ بنایا گیا، 2015 میں نعیم کی ایک اور خالہ گوہر بلوچ سمیت ان کے سات رشتہ دار ایک فضائی حملے میں جانبحق ہوئے تھے، جبکہ 2023 میں نعیم بلوچ خود بھی جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے، ان کی والدہ جو اب اس واقعے میں زخمی حالت میں ہیں کو بھی ماضی میں پاکستانی فورسز کی جانب سے حراست میں لیا گیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران صرف آواران اور مشکے کے علاقوں میں درجنوں افراد ماورائے عدالت کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں تاہم ملکی میڈیا خاموش ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچ وومن فورم نے عالمی برادری اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان واقعات کی آزاد، شفاف اور بین الاقوامی تحقیقات کا بندوبست کریں۔
دونوں تنظیموں نے کہا ہے کہ یہ واقعات محض انفرادی سانحات نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا حصہ ہیں جن کا مقصد بلوچ شناخت، مزاحمت اور وجود کو ختم کرنا ہے۔