ہر شہادت ایک مشعل ، ہر لاش ایک چراغ
تحریر: ماہ ساچ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قابض ریاستیں جب آزادی کی تحریکوں کا سامنا کرتی ہیں تو وہ صرف میدان جنگ میں قوت استعمال نہیں کرتیں، بلکہ نفسیاتی اور سماجی سطح پر بھی دباؤ ڈالنے کے نت نئے حربے اپناتی ہیں۔ لاشوں کی واپسی میں تاخیر یا انکار بھی انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے۔ لیکن عظیم اور انقلابی سوچ رکھنے والے قوم ان سب سے پرے ہوکر ان ہتھکڈوں کو انقلاب میں بدل دیتی ہیں جیسا کہ نبیل زکا اور فیروز کے وارثوں نے کرکے دیکھایا۔ یہ عمل انسانی، اخلاقی اور مذہبی اصولوں کے سراسر خلاف ہے، لیکن قابض طاقتیں اسے ایک “جنگی ہتھیار” کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اس کا مقصد صرف دشمن کے سپاہی کو مارنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد اس کی یاد، اس کے خاندان اور کمیونٹی کو بھی اذیت پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ اجتماعی سزا کی ایک شکل ہے تاکہ تحریک میں شامل باقی افراد کو خوفزدہ کیا جا سکے اور عوام کو جدوجہد سے متنفر کیا جا سکے۔ سائیکالوجی کی زبان میں یہ عمل “post-mortem punishment” کہلاتا ہے، یعنی مرنے کے بعد سزا دینا۔ یہ سزا صرف فرد کو نہیں بلکہ پورے سماج کو دی جاتی ہے۔ لاشوں کی واپسی میں رکاوٹ ڈال کر قابض قوتیں مزاحمتی تحریکوں کی علامتی طاقت کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں، کیونکہ شہید کی لاش ایک علامت بن جاتی ہے — حوصلے، قربانی، اور نظریے کی۔ اگر یہ لاش واپس نہ کی جائے، تو عوام کے لیے اس نشان کو خراج عقیدت پیش کرنے، جنازے کی شکل میں اجتماعی اظہارِ یکجہتی کرنے، اور شہید کو ایک روحانی مقام دینے کا موقع چھین لیا جاتا ہے۔ یوں وہ جذباتی قوت جو ایک شہید کی تدفین کے دوران پیدا ہوتی ہے، اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لیکن شہید نبیل،شہید زکا اور شہید فیروز کے بلوچ وارثوں نے اسے اپنی ہمت اور حوصلوں سے غلط ثابت کردیا۔
یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی تحریک کے دوران، سری لنکن فوج نے کئی بار تامل جنگجوؤں کی لاشیں واپس کرنے سے انکار کیا۔ اس کا مقصد تامل آبادی کو نفسیاتی دباؤ میں رکھنا اور شہداء کو ہیرو بنانے سے روکنا تھا۔ اسی طرح سامرجی قوتوں نے عظیم انقلابی چے گویرا کو مارے کے بعد اسکا لاش گمنام جگہ پہ قبر کی تھی لیکن اس گمنام قبر سے چے گویرا کو گمنام نہ کرسکے۔اور آج چے پوری دنیا کے لئے انقلاب کے نشان بنے ہوئے ہیں۔
ان اقدامات کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی کہ تحریک کے جذباتی اور علامتی پہلوؤں کو کمزور کیا جائے۔
بلوچستان میں آج جو ہو رہا ہے، وہ انہی آزمودہ نوآبادیاتی طریقوں کا تسلسل ہے۔ پاکستانی ریاست اپنے سیاسی، اخلاقی اور قانونی جواز سے محروم ہو چکی ہے، اور اب وہ صرف عسکری زور اور نفسیاتی دباؤ سے بلوچ عوام کو دبانا چاہتی ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ لاشوں کی بے حرمتی سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں، بلکہ اکثر اوقات مزید شدت اختیار کر لیتی ہیں جو آج کیچ کی سرزمین پہ ایک ہم دیکھ چکے ہیں۔ ایک ماں جس کا بیٹا لاش کے بغیر لاپتا ہو، وہ ریاست سے کبھی مفاہمت نہیں کرے گی، اور ایک نسل جو اپنے شہداء کی تدفین سے بھی محروم ہو، وہ کبھی غلامی کو قبول نہیں کرے گی۔
بلوچستان کی سرزمین پر جاری آزادی کی جدوجہد ایک صدی کے دکھوں، قربانیوں اور حوصلوں کی داستان ہے۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں ہر قدم پر شہداء کا لہو گواہی دیتا ہے کہ بلوچ قوم نے اپنی شناخت، اپنی سرزمین اور اپنی آزادی کی قیمت چکائی ہے—اور چکا رہی ہے۔
چند دن پہلے دشمن ریاست کی گولیوں کا نشانہ بن کر تین بلوچ فرزند شہید ہوئے۔ مگر ظلم یہاں رکا نہیں۔ ان شہداء کی لاشیں بھی ان کے اہلِ خانہ کو دینے سے انکار کر دیا گیا—گویا لاشوں سے بھی خوف آتا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے جو مردہ جسموں سے کانپتا ہے؟ جو ماں کو بیٹے کی میت دیکھنے کا حق بھی نہیں دیتا؟ یہ صرف بربریت نہیں، یہ ایک بزدل ریاست کی کمزوری کی سب سے بڑی نشانی ہے۔اور یہی ہماری سب سے بڑی طاقت کہ دشمن کے ظلم کے خلاف ہم خاموش نہیں بلکہ اور شدت سے دشمن پہ عذاب اور اپنی سرزمین کی آجوئی کے لئے تڑپ دل اور روح میں بو رہے ہیں۔
اسی طرح آج قوم خاموش نہیں ہوئی۔ بلوچستان کے کونے کونے سے آواز اٹھنے لگی: “ہمیں ہمارے شہداء واپس کرو!” مظاہرے ہوئے، سڑکیں بند ہوئیں، ماں نے بین کیا، بہن نے پکارا، اور نوجوانوں نے ریاستی جبر کو للکارا۔ یہ احتجاج صرف لاشوں کی واپسی کا مطالبہ نہیں تھا—یہ ایک پیغام تھا۔ ایک للکار تھی کہ “ہم جاگ چکے ہیں، اب نہ ہمیں دبایا جا سکتا ہے، نہ خریدا جا سکتا ہے۔”
ہماری قوم بس یہی ایک آواز ہے تم مارو گئے ہم نکلیں گئے۔لیکن کھبی بھی اپنی آزادی سے دست بردار نہیں ہوں گئے۔
بلوچ عوام آج پہلے سے زیادہ باشعور اور منظم نظر آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے خلاف ظلم کب اور کہاں ہو رہا ہے، اور اب وہ ان مظالم کے خلاف خاموش نہیں رہتے۔ ہر لاش، ہر آنسو، اور ہر احتجاج یہ اعلان کر رہا ہے کہ بلوچ قوم اپنی شناخت اور آزادی کی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے والی نہیں۔بلکہ اسکی وجود میں مزاحمت جنم لئے رہی ہے۔
یہ واقعہ ایک بار پھر ہم کو احساس دلا رہا ہے کہ ہم غلام ہیں اور غلام کی کوئی حثیت نہیں ہوتی اس لئے غلام کے پاس اسکی اصل قوت اسکی مزاحمت اور اقلابی عمل ہوتی ہے۔بریاست لاشوں کو روک کر خوف پھیلانا چاہتی ہے، مگر سچ یہ ہے کہ وہ خود خوفزدہ ہو چکی ہے۔اس بیداری سے، اس اتحاد سے، اور اس قوم کی غیرت سے جو اب مزید غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں۔
بلوچستان کی سرزمین قربانیوں سے سیراب ہو چکی ہے، اور ہر شہادت ایک نئے جذبے کو جنم دیتی ہے۔ بلوچ قوم زندہ ہے، بیدار ہے، اور اپنی آزادی کی راہ پر گامزن ہے
بلوچ قوم آج ایک نئی شعور کے ساتھ میدان میں ہے۔ جو کل خاموش تھا، آج بول رہا ہے۔ جو کل بکھرا ہوا تھا، آج متحد ہو رہا ہے۔ یہ اتحاد، یہ بیداری، دشمن کی نیندیں حرام کر رہی ہے۔ شہداء کی میتیں چھین کر دشمن سمجھتا ہے کہ وہ دل توڑ دے گا، مگر وہ بھول گیا کہ بلوچ کی غیرت اور حوصلہ لاشوں سے نہیں مرتا، وہ قربانیوں سے اور ابھر کر سامنے آتا ہے۔
یہ وقت تاریخ لکھ رہی ہے۔ آج کا بلوچ نہ صرف اپنے حقوق کا شعور رکھتا ہے بلکہ ان کے لیے آواز اٹھانے کا سلیقہ بھی جانتا ہے۔ ہر شہادت ایک مشعل ہے، ہر لاش ایک چراغ ہے، اور ہر احتجاج ایک زندہ قوم کی دلیل ہے۔
بلوچستان کے جوان، بزرگ، مائیں اور بہنیں آج مل کر ایک نعرہ بلند کر رہے ہیں:
“ہم زندہ ہیں، ہم باشعور ہیں، اور ہم اپنی آزادی تک رکنے والے نہیں!
آج شہید نبیل،شہید زکا اور شہید فیروز لاش نہیں
مکمل انقلاب اور مزاحمت بن چکی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں