مشکے: پاکستانی فورسز نے مقامی صحافی کو گھر میں قتل کردیا

151

ضلع آواران کے تحصیل مشکے میں گزشتہ رات معروف صحافی اور انتخاب اخبار کے نمائندے عبداللطیف ولد جان محمد کو ریاستی اہلکاروں نے ان کے گھر میں رات تین بجے سوتے ہوئے، اہلِ خانہ کے سامنے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن سمی دین بلوچ کے مطابق اس سے قبل رواں سال 28 فروری کو عبداللطیف بلوچ کے گھر سے ایک ہی خاندان کے آٹھ نوجوانوں کو آرمی کیمپ بلا کر حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں سے پہلے چار، پھر باقی چار افراد کو قتل کر کے ان کی لاشیں پھینک دی گئیں۔ ان مقتولین میں عبداللطیف کا بیٹا، نوجوان سیف بلوچ بھی شامل تھا۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں انسانیت سوز اور المناک واقعات کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، مگر پاکستانی صحافی، انسانی حقوق کے علمبردار اور ریاستی ادارے اس سنگین صورتحال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر کسی شہری کا قتل جرم ہے، تو یہ بھی تو سویلین ہی تھے جنہیں ان کے گھروں میں، سوتے ہوئے مارا گیا پھر اس پر خاموشی کیوں؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں؟ یا اس لیے کہ ان کا تعلق طاقتور اداروں یا اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں سے نہیں ہے؟

انہوں نے کہاکہ جب ہم ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، تو ہمیں “پراکسی” اور “دہشتگرد” جیسے القابات دیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے ہمیشہ سویلین کے ہر قتل کی مذمت کی ہے چاہے وہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہو یا غیر ریاستی عناصر کے لیکن جو ہم سے پرتشدد واقعات کی مذمت کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ریاستی اداروں کی طرف سے ہونیوالی انسانی حقوق کے پامالیوں پر کیوں خاموش ہیں، کیوں وہ ریاستی نمائندوں سے ان جرائم پر سوال نہیں اٹھاتے؟

سمی دین بلوچ نے کہاکہ وہ لوگ، جو ریاستی اداروں کے ان غیر انسانی جرائم پر خاموش ہیں، درحقیقت جانبدار ہیں۔ ان کی صحافت انسانی حقوق کا محض یک طرفہ ہے۔ انہیں غیر ریاستی عناصر کے مظالم تو نظر آتے ہیں، لیکن ریاستی اہلکاروں کے جرائم پر ان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔

مزید کہاکہ بی وائی سی پر پروپیگنڈہ اور گمراہ کن بیانیہ نشر کرنے کے بجائے، پاکستانی مین اسٹریم میڈیا کو چاہیے کہ وہ بلوچستان آکر زمینی حقائق کی شفاف رپورٹنگ کرے اور بی وائی سی جو الزام لگا رہی ہے وہ سچ اور حقیقت ہیکہ نہیں۔ صرف اسی صورت میں ہم مان سکتے ہیں کہ آپ کی صحافت اور سیاست غیر جانبدار ہے۔ ورنہ خاموشی، جانبداری اور ظلم کی حمایت ہی سمجھی جائے گی۔