فیمل ہاسٹل اور اس کے کبھی نہ حل ہونے والے مسائل
تحریر: بی کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سنا تھا کہ ہر ادارے میں کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا حل ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوتا ہے۔
اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی مینٹیننس کے نام پر جیبیں بھرنے کے لیے، اور کبھی لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے مصنوعی مسائل پیدا کیے جاتے ہیں، اور دکھاوے کے اقدامات کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہمیں طلباء کی کتنی فکر ہے۔
اب بات کرتے ہیں فیمل ہاسٹل کے مسائل کی۔ سب سے پہلے تو میں حیران ہوں کہ یہ کیسا ادارہ ہے جہاں لوگ پڑھنے کے لیے آتے ہیں، لیکن افسوس کہ یہاں تعلیمی ماحول کو جان بوجھ کر خراب کیا جا رہا ہے۔ پہلے تو یہاں برائے نام ایک لائبریری ہوا کرتی تھی، جس میں کبھی کبھار لڑکیاں پڑھائی کے اوقات میں جا کر مطالعہ کیا کرتی تھیں۔ وہاں کبھی لائٹ تو کبھی پنکھے کا مسئلہ ہوتا تھا، لیکن ان سب کو نظرانداز کرکے طلباء پھر بھی وہاں جا کر پڑھتی تھیں۔
تاہم کچھ عرصہ پہلے تعداد کا بہانہ بنا کر وہ لائبریری ہم سے چھین لی گئی، اور لوگوں کو خاموش رکھنے یا خوش کرنے کے لیے ہاسٹل سے باہر رہنے کے اوقات میں اضافہ کر دیا گیا، تاکہ کہا جا سکے کہ اب آپ سنٹرل لائبریری میں جا کر پڑھیں۔ یہ سراسر ایک احمقانہ فیصلہ تھا۔ اب ان “عقلمندوں” کو کون سمجھائے کہ ہر کوئی روزانہ سنٹرل لائبریری نہیں جا سکتا، اور پڑھائی کا وقت شام سات بجے کے بعد ختم نہیں ہوتا۔ بہت سی طالبات ایسی بھی ہیں جو رات کو پڑھتی ہیں، لیکن لائبریری کی بندش کے بعد سے اُنہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لائبریری کا تاحال بحال نہ ہونا، تعلیم دشمن پالیسی کی کھلی عکاسی کرتا ہے۔
اس پورے ہاسٹل میں انٹرنیٹ کی سہولت برائے نام ہے۔ وائی فائی کے لیے جو موڈیم لگائے گئے ہیں، وہ انتہائی ناقص اور کم معیار کے ہیں۔ ان کی رینج اتنی کم ہے کہ اگر کوئی یوٹیوب پر لیکچر سن رہا ہو یا کسی پروجیکٹ پر کام کر رہا ہو، تو اُسے ضروری مواد ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے موڈیم کے نیچے آ کر طویل انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ اس سست رفتار انٹرنیٹ سے کام مکمل ہو سکے۔
گرمی کے اس شدید موسم میں پورے ہاسٹل میں صرف ایک واٹر کولر ہے، جو اتنی بڑی تعداد کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ اکثر اس کا پانی بھی گرم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے لڑکیاں نلکوں سے پانی بھر کر فریج میں رکھتی ہیں، جو کہ صاف نہیں ہوتا۔ لیکن ادارے کے سربراہان کو اب تک اس بات کا احساس تک نہیں کہ اس ہاسٹل میں کتنی طالبات رہائش پذیر ہیں۔ کوئی مہربانی ہی کر لی جائے — کم از کم دو فلٹرز تو لگا دیے جائیں۔ مگر بات وہی پر آ کر رک جاتی ہے کہ یہ کام کرے کون؟ ان “بیچاروں” کے پاس تو فنڈز کی کمی ہے، اور جو کچھ ہے وہ روزانہ غیر ضروری سیمیناروں پر خرچ کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاسٹل میں اکثر طالبات یہ دعا کرتی ہیں کہ کوئی چیز خراب نہ ہو، کیونکہ انہیں پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وارڈن صاحبہ کو شکایت کی جائے کہ پنکھا یا لائٹ خراب ہے، تو سیدھا جواب آتا ہے: “آپ خود سے ارینج کریں، ہم لگوا دیں گے۔” اب ان کو کون سمجھائے کہ ہم میں سے کئی طالبات ایسی ہیں جو خود سے ارینج نہیں کر سکتیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے والدین ہر سمسٹر جو فیس ادا کرتے ہیں، اس میں ہاسٹل مینٹیننس کی رقم بھی شامل ہوتی ہے، جسے متعلقہ افسران “حلال” سمجھ کر ہضم کر جاتے ہیں۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ انتظامیہ اپنا اصل کردار ادا کرے، اور ان تمام مسائل کا فوری حل نکالے، ورنہ ہم طالبات اپنے جائز مطالبات کے لیے ہر قسم کے احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں