داعش خراسان کا بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے خلاف اعلانِ جنگ

1482

داعش خراسان (آئی ایس کے پی) نے ایک نئے 36 منٹ طویل ویڈیو بیان میں پہلی بار سرِ عام بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے۔

داعش خراسان کی جانب سے مذکورہ ویڈیو پشتو زبان میں جاری کی گئی ہے جس میں بلوچ مسلح گروپوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر حملوں کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔

ویڈیو میں داعش نے الزام عائد کیا ہے کہ دو ماہ قبل بلوچ مسلح جنگجوؤں نے مستونگ کے علاقے میں ان کے کیمپ پر حملہ کیا، داعش نے کہا کہ وہ اب بلوچ تنظیموں کے خلاف اسی شدت سے کارروائی کرے گی جیسے انہوں نے افغان طالبان کے خلاف کی تھی۔

ویڈیو کے آخر میں داعش خراسان نے عام شہریوں خصوصاً لاپتہ افراد کے لواحقین کو خبردار کیا ہے کہ وہ بلوچ حقوق کے مظاہروں یا ریلیوں میں شرکت نہ کریں کیونکہ اب یہ اجتماعات داعش کے اہم اہداف بن چکے ہیں۔

اس انتباہ سے خدشہ ہے کہ مستقبل میں ان مظاہروں کو خودکش حملوں یا دیگر پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، ویڈیو میں داعش نے بلوچ آزادی پسند گروہوں کو سیکولر قوم پرست کہہ کر ان پر اسلامی اقدار کے خلاف ہونے کا الزام لگایا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ بلوچ جنگجو اور داعش دونوں ایک ہی پہاڑی علاقوں میں چھپ کر پاکستان کے خلاف مہم چلا رہے تھے لیکن بلوچ تنظیموں نے یکطرفہ طور پر داعش پر حملہ کیا جس کے جواب میں اب داعش کارروائی کرے گی۔

ویڈیو میں داعش خراسان نے اپنے جنگجوؤں کو ہدایت دی ہے کہ وہ بلوچ تنظیموں اور ان کے حامیوں کے خلاف مکمل طاقت کے ساتھ کارروائی کریں جس میں خودکش حملے بھی شامل ہو سکتے ہیں، ویڈیو میں خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور ان کے اتحادیوں کا نام لیا گیا ہے۔

ویڈیو میں بعض بلوچ انسانی حقوق کی تنظیموں کی ریلیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جنہیں داعش نے “علیحدگی پسندوں کے حمایتی” قرار دے کر دھمکیاں دیں اس بات نے خدشات کو جنم دیا ہے کہ داعش اب براہ راست انسانی حقوق کے کارکنوں اور مظلوم خاندانوں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔

اگرچہ داعش خراسان کا بلوچستان میں کوئی مضبوط ٹھکانہ یا عوامی حمایت نظر نہیں آتی لیکن کئی تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے اداروں کا ماننا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ خفیہ طور پر داعش کو بلوچ مزاحمتی تحریکوں کے خلاف استعمال کررہی ہے۔

بلوچستان میں داعش اور بعد ازاں داعش خراسان کئی عرصے سے بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں ملوث رہی ہے جبکہ عالمی دہشت گرد مذہبی تنظیم کی جانب سے مستونگ میں پولیس کو نشانہ بنانے کے دوران اسکول وین پر بم حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔

داعش کی اکثر کارروائیاں بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ریکارڈ کی گئی ہیں جبکہ داعش نے ان حملوں میں مذہبی سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا ہے جبکہ اس کے بعد بلوچستان کا مستونگ اس گروہ کے حملوں کا مرکز رہا ہے جہاں متعدد خودکش حملوں کی ذمہ داری اسی گروہ نے لی ہے۔

واضح رہے کہ عالمی اداروں کے ساتھ بلوچ آزادی پسند تنظیمیں شروع سے پاکستانی فوج پر الزام لگاتی رہی ہیں کہ وہ بلوچستان میں داعش کو سرگرم کرنے اور بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف استعمال کر رہی ہے جبکہ پاکستان کے پڑوسی ممالک بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر یہی الزام دہراتے رہے ہیں۔

پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان کئی بار پاکستان پر الزام لگا چکے ہیں کہ وہ داعش کے نیٹ ورکس کو پناہ دیتا ہے، گزشتہ سال ایران کے شہر شیراز میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی اور ایرانی حکومت کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے پاکستانی سرزمین استعمال کی۔

اسی طرح کابل حکومت بھی کئی مواقع پر الزام لگاتی رہی ہے کہ داعش پاکستان سے افغانستان میں انکے فورسز اور سرکاری اہلکاروں پر حملے کرتی ہے۔

تاحال بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ یا کسی اور مسلح تنظیم نے داعش کے اس اعلانِ جنگ پر کوئی باضابطہ ردعمل جاری نہیں کیا ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ آئندہ دنوں میں صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے۔