بی وائی سی کے رہنماؤں کو ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ سمی دین بلوچ

84

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء سمی دین بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو تقریباً دو ماہ سے غیر قانونی طور پر جیل میں رکھا گیا ہے، جس پر عدالتی رویہ غیر سنجیدہ اور مایوس کن بنتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت متعدد رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف اور جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں تیزی کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاج جاری ہے۔


سمی دین بلوچ نے کہا کہ ریاست بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور قتل و غارت کو معمول بنا چکی ہے، اور ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر انسانی حقوق کی پامالیوں کو قانونی جواز دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالتوں کا کردار اس تمام عمل میں غیر جانبدار کے بجائے ایک خاموش تماشائی جیسا دکھائی دے رہا ہے۔


بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ ان سیاسی قیدیوں کا واحد “جرم” یہ ہے کہ وہ ظلم کے خلاف خاموش نہیں رہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آوازوں کو قید کرنے سے نہ بلوچستان کا مسئلہ ماضی میں حل ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست اس طرزِ عمل سے نہ صرف جمہوری اقدار کو مجروح کر رہی ہے بلکہ پرامن اور آئینی جدوجہد کو بھی بے معنی بنا رہی ہے۔ جب انصاف کی راہیں مسدود کی جائیں، تو سیاسی تحریکوں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے—اور یہی بیگانگی آنے والے وقتوں میں مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے، جو کسی نئی شورش کو جنم دے سکتی ہے۔