پانچ عالمی انسانی حقوق تنظیموں نے پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف کو ایک مشترکہ خط میں بلوچستان میں بلوچ انسانی حقوق و سیاسی کارکنوں پر جاری کریک ڈاؤن، گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور پرامن احتجاج کے خلاف ریاستی جبر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم کو خط بینل اقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ایشین فورم فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈیولپمنٹ ، فرنٹ لائن ڈیفینڈرز، انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس (FIDH)، ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر (OMCT) نے لکھا ہے اور فوری طور پر بلوچ سیاسی کارکنان کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
خط میں ان اداروں کی جانب سےکہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان افراد کو ہراساں کرنا اور غیر قانونی طور پر حراست میں لینا جو اظہارِ رائے اور پرامن اجتماع کے آئینی حق کا استعمال کر رہے ہیں نہ صرف پاکستان کے آئین بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے جن پر پاکستان دستخط کر چکا ہے۔
خط میں خاص طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کو نشانہ بنائے جانے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے جو ایک پرامن عوامی تحریک ہے جو جبری گمشدگیوں کے خلاف اور انصاف کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔
اس دوران ان تنظیموں نے پاکستانی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پبلک آرڈر آرڈیننس 1960، الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 اور انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 جیسے قوانین کو غلط استعمال کر کے بلوچ کارکنوں کو نشانہ بنارہی ہے۔
خط میں انسانی حقوق کارکن بیبرگ زہری، جو معذور ہیں کو 20 مارچ سے تھری ایم پی او کے تحت حراست میں رکھنے اور ان کی رہائی کے لیے احتجاج کرنے والے مظاہرین پر 21 مارچ کو فائرنگ کر کے تین افراد کو قتل کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔
اسی طرح 22 مارچ کو خواتین کارکنان ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ کو کوئٹہ میں ایک پرامن دھرنے سے گرفتار کیا گیا جنہیں کئی گھنٹے تک لاپتہ رکھا گیا، قانونی نمائندگی اور طبی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔
اس کے علاوہ سمی دین بلوچ، گلزادی بلوچ، شاہ جی صبغت اللہ اور دیگر متعدد کارکنوں کی گرفتاریوں اور عدالتوں سے ضمانت ملنے کے باوجود تھری ایم پی او کے تحت دوبارہ حراست میں لیے جانے کی مذمت کی گئی ہے، کارکنوں کے اہلِ خانہ کو ہراساں کرنا، گھروں پر چھاپے مارنا اور طبی سہولیات نہ دینا بھی خط میں اٹھائے گئے اہم نکات ہیں۔
خط میں 24 مئی کو صحافی عبد اللطیف بلوچ کے قتل، وکیل جلیلہ حیدر کے خلاف مقدمہ اور صحافی وحید مراد کی گرفتاری کو بھی آزادیٔ اظہار پر حملہ قرار دیا گیا ہے، انٹرنیٹ بندشیں، ڈیجیٹل نگرانی اور سنسرشپ بھی بلوچ آوازوں کو خاموش کرنے کے خطرناک ہتھکنڈے قرار دیے گئے ہیں۔
خط میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام بلوچ انسانی حقوق کارکنوں اور ان کے اہلِ خانہ کو فوراً اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے، ان پر قائم تمام جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں، حراست کے دوران قانونی اور طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور دورانِ حراست تشدد کے الزامات کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔
خط میں ان تنظیموں نے پاکستانی وزیر اعظم سے مزید مطالبہ کیا ہے کہ پرامن احتجاج صحافت اور آزادیِ اظہار کے آئینی حقوق کا احترام کیا جائے، کارکنوں کے اہلِ خانہ کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور 21 مارچ کو کوئٹہ میں مظاہرین پر فائرنگ کے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔