بلوچستان: مرکزی شاہراہوں پر ناکہ بندیاں، پاکستانی فورسز پر حملے، پولیس تھانے نذر آتش، اسلحہ ضبط

337

بلوچستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی اضلاع میں پاکستانی فورسز، پولیس اور ریاستی اداروں پر حملے کیے گئے، جب کہ بعض علاقوں پر مسلح افراد نے کنٹرول قائم کر لیا ہے۔

ضلع کیچ کے تحصیل ہوشاب میں مسلح افراد نے شدید فائرنگ اور دھماکوں کے بعد لیویز تھانے اور نادرا آفس پر قبضہ کر کے انہیں نذر آتش کر دیا۔ علاقے میں تمام داخلی و خارجی راستوں پر ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق دس سے زائد غیر مقامی افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

پنجگور کے علاقوں وشبود، مجبور آباد اور بونستان میں مسلح افراد نے پولیس کی گاڑیاں تحویل میں لے کر اہلکاروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس تھانے پر قبضہ کرنے کے بعد اسلحہ ضبط کر کے عمارت اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ بونستان میں چیک پوسٹ پر قبضے کے دوران ڈیتھ اسکواڈ سے تعلق رکھنے والے افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔

کوئٹہ کے جوائنٹ روڈ، ہزار گنجی، اسپنی روڈ اور فیض آباد سمیت ڈھاڈر اور بولان کے تھانوں پر دستی بم حملے کیے گئے۔ ان حملوں میں جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں، تاہم سرکاری طور پر تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

کوئٹہ سے متصل علاقے دشت، تیرہ میل میں بلوچستان کو سکھر سے ملانے والی این 65 پر بڑی تعداد میں مسلح افراد نے ناکہ بندی قائم کرتے ہوئے شاہراہ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

صحبت پور اور ڈیرہ مراد جمالی میں مرکزی شاہراہ پر مسلح افراد نے ناکہ بندی کرکے شاہراہ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

تربت کے علاقے جدگال ڈن اور بلیدہ میں بھی دھماکوں اور فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن کے دوران سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔

ہوشاب زیرو پوائنٹ کے مقام پر پاکستانی فورسز کے قافلے پر اس وقت حملہ کیا گیا جب علاقہ پہلے ہی مسلح افراد کے زیر کنٹرول آ چکا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ فورسز کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

بلوچستان میں حالیہ کارروائیاں اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ بلوچ مسلح تنظیمیں نہ صرف زمینی سطح پر منظم اور فعال ہیں بلکہ وہ سیکیورٹی اداروں کی نقل و حرکت پر بھرپور نگرانی اور حملے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔

متعدد اضلاع میں بیک وقت حملے، تھانوں پر قبضہ، اسلحہ ضبط اور قافلوں پر گھات لگا کر حملہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تنظیمیں جدید حکمت عملی، تربیت یافتہ جنگجوؤں اور مقامی حمایت کے ساتھ ریاستی اداروں کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکی ہیں۔

ان کی کارروائیوں کی وسعت، رفتار اور ہم آہنگی ان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور تنظیمی ڈھانچے کی مظہر ہے۔