‏شہدائے مرگاپ کو ان کی عظیم قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بی ایس او آزاد

135

‏بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قومی تحریک عظیم قربانیوں کی تاریخ سے بھری پڑی ہے، انہی عظیم قربانیوں کی بدولت آج بلوچ قومی تحریک ایک حقیقت کی مانند بلوچ عوام کے اندر مکمل طور پر سما چکی ہے اور بلوچستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے جس کی وجہ سے دشمن کیلئے بلوچستان تنگ ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قابض پاکستانی فوج نے آج سے 16 سال پہلے شہید غلام محمد، شہید لالا منیر اور شہید شیر محمد کو جبری گمشدگی کے بعد ان کی مسخ شدہ لاش پھینک کر بلوچ قوم کو ان کی غلامانہ حیثیت سے مزید آشنا کیا اور اُس دن سے لیکر آج تک قابض پاکستانی فوج بلوچستان میں اپنی جنگی جرائم جاری رکھی ہوئی ہیں اور بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیاں، بعد ازاں ان کی مسخ شدہ لاش پھیکنا یہ واضح کرتی ہیں کہ دشمن بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کیلئے بدترین بربریت و وحشت پر اتر آئی ہے۔ جو جبر اور وحشت انہوں نے شہید واجہ غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرکے شروع کیا وہ آج بھی زور و شور سے جاری ہے لیکن فکرِ چیئرمین غلام محمد اور بلوچ قوم میں آزادی کی شعور آج بلوچستان کے گھر گھر میں پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے دشمن بدترین خوف کا شکار ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست نے شہید واجہ غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرکے بلوچ سیاسی کارکنان کے ذہن میں خوف پیدا کرنے کی کوششیں کی لیکن قابض دشمن اس حقیقت سے لاعلم ہے کہ نظریہ اور فلسفہ جسمانی جدائی کی صورت میں ختم نہیں کیے جا سکتے، جن خیالات و افکار کو شہید غلام محمد نے بلوچستان کے ہر کونے میں پھیلانے میں کردار ادا کیا انہیں دشمن جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاش کی صورت میں ختم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج شہدائے مرگاپ کو 16 برس بیت چکے ہیں اور آزادی کی جدوجہد مزید مضبوط، طاقتور اور منظم شکل اختیار کر چکی ہے۔ کوہِ سلیمان، رخشان، نصیر آباد سے لیکر بلوچستان کے تمام علاقوں میں آج آزادی کی جدوجہد منظم انداز میں پہنچ چکی ہے اور نوجوان جہدِ آزادی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کر رہے ہیں جو شہدائے مرگاپ کے نظریات اور فلسفے کی کامیابی ہے۔

‏انہوں نے کہا کہ دشمن طاقت کے نشے میں دھت ہوکر اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ طاقت کسی نظریے کو ختم نہیں کر سکتے۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ ایک مہینے کے اندر 20 سے زائد بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا گیا ہے جس میں مشکے سے تعلق رکھنے والے 8 نوجوان شامل ہیں جبکہ بارکھان، کوہِ سلیمان سے لیکر مکران تک بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قابض فوج لوگوں کو جبری گمشدگی کے بعد ان کی مسخ شدہ لاش یا Kill and Dump  کا بوسیدہ و پرسودہ پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے لیکن تحریکِ آزادی دن بدن مزید منظم اور متحرک ہوتی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن سیاسی نظریات کی بنیاد پر بلوچ سیاسی لیڈرشپ کو جبری گمشدگی کے بعد شہید کیا گیا آج وہ سیاسی نظریات بلوچستان کے ہر گھر پہنچ چکی ہیں اور شہدائے مرگاپ کے شہید اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ قابض پاکستانی فوج نے شہید واجہ غلام اور دیگر ساتھیوں کو شہید کرکے بلوچ عوام کو پیغام دیا کہ دشمن بلوچستان کو ایک کالونی کی حیثیت سے طاقت اور وحشت کے ذریعے چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن آج عوامی جدوجہد اور تحریک آزادی کے فکر و فلسفے نے ان کی نیندیں حرام کر دی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ آج قابض کے پارلیمنٹ سے لیکر پنجاب کے تمام لوگ بلوچ قومی جدوجہد سے آگاہ ہو چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب بلوچ قومی اور عوامی مزاحمت سے تنگ آکر دشمن بلوچستان سے نکلنے اور بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا۔ شہدائے مرگاپ کی شہادت نے بلوچ عوام میں قومی آزادی کی جدوجہد اور حقیقی فکر و فلسفے کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی قربانیاں آج بلوچ سیاسی کارکنان کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہدائے مرگاپ کو ان کی شہادت کے دن خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بلوچ عوام اور بلخصوص بلوچ سیاسی جہدکاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ شہدائے مرگاپ شہید واجہ غلام محمد، شہید لالا شیر محمد اور شہید لالا منیر کے فکر و فلسفے کی آبیاری کرتے ہوئے قومی تحریک آزادی میں شمولیت اخیتار کریں اور قومی جدوجہد کو منظم اور متحرک کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آج بلوچستان کے گھر گھر اس بات اور حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے کہ قومی تحریک اور آزادی کی جدوجہد ہی دشمن سے چھٹکارہ کا واحد ذریعہ ہے جس مشعل راہ کو شہدائے مرگاپ نے اپنی خون سے ہمیں دیکھایا ہے۔ شہدائے مرگاپ کی قربانیاں بلوچ قومی تحریک میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور ان کے نظریات و افکار سے بلوچ سیاسی کارکنان ہمیشہ رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔