ہمیں صبر، استقامت، شعور، اور اعتماد کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

1441

بلوچ آزادی پسند رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے بی ایل ایف کی جانب سے شائع ہونے والے ماہانہ میگزین “اسپر” میں اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جنگ کے تسلسل سے ہی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ بلوچ قومی جنگِ آزادی کی تسلسل نے دشمن کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ ایک پنجابی رہنما کا کہنا ہے کہ “بلوچ کو جہاں دیکھو، گولی مار دو”۔ شاید اس عاقبت نااندیش شخص کو معلوم نہیں کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی سے اس کے اکابرین یہ عمل شروع کر چکے تھے۔ بلوچوں نے پانی کے مطالبے پر لاشیں اٹھائیں، بجلی کے مطالبے پر بلوچ کا خون بہایا گیا، اور راشن کے لیے جدوجہد کی تو اس کے بدلے میں بھی لاشیں ہی ملیں۔ زندہ درگور کرنے والے اور ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ قوم نے شعوری طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ اس ملک میں رہنا نسل کشی کو مزید بڑھاوا دے گا، اور خاموشی اختیار کرنا گویا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ ماضی کی تحریکوں کے برعکس، گزشتہ دو دہائیوں سے جاری اس جنگ میں نہ صرف شدت آ چکی ہے بلکہ پوری بلوچ قوم کی مکمل شمولیت نے اسے مزید مضبوط کر دیا ہے۔ اب بلوچ حقیقت کو سمجھ چکا ہے کیونکہ جبری گمشدگیاں اور گمنام قبروں میں دفن کیئے جانے والے شہداء کی لاشیں اس جنگ کی حقیقت کو آشکار کر چکی ہیں۔ تمام تر ریاستی دہشتگردی، جبر و استبداد اور نسل کشی کے باوجود، بلوچ قوم جھکا نہیں ہے۔

اب پنجاب کے گمراہ فوجی حکمران یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے “رول آف گیم” (قواعدِ جنگ) بدل دیے ہیں، مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بلوچ بہت پہلے ہی ان قواعد کو بدل چکا ہے۔ پنجاب ایک لینڈ لاک (بری حدود میں مقید) خطہ ہے، جسے اپنی خوشحالی اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے بلوچ سرزمین کے وسائل پر قبضہ درکار ہے۔ اسی مقصد کے تحت وہ کسی بھی انسانی یا اخلاقی قدر کو پسِ پشت ڈال کر بلوچ قوم اور تحریک آزادی کے خلاف اپنی پوری قوت اور دہشت کا استعمال کر رہا ہے۔

اپنے پیغام میں کہاکہ میں اپنی قوم سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ ہمیں صبر، استقامت، شعور، اور اعتماد کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ قومیں جنگ، قحط، اور وباؤں سے ختم نہیں ہوتیں، بلکہ نااتفاقی، آپس میں عدم برداشت، اور سطحی مسائل میں الجھے رہنے سے تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اتحاد، یکجہتی، اور آزادی کی جدوجہد سے شعوری وابستگی ہی ہماری بقا کی ضامن ہے۔

مزید کہاکہ بلوچ سرمچار آزادی کی جنگ کو جس مہارت اور ذہنی بلوغت کے ساتھ لڑ رہے ہیں، اس کی نظیر شاید اس خطے میں کہیں نہیں ملتی۔ جہاں تک بلوچ قوم کی تحریکِ آزادی میں شمولیت کا تعلق ہے، تو یہ غلامی کے خلاف اس کے احساسِ بغاوت کی اعلیٰ مثال ہے۔ ماضی قریب میں قومی آزادی کی جنگوں میں ایسی شعوری اور عملی شمولیت کی مثال نہیں ملتی۔

ایک قومی رہنما کو نبض شناس ہونا چاہیے، دشمن کی مکاریوں، چالاکیوں اور اندرونی دشمنوں سے باخبر ہونا چاہیے، تبھی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ بلوچ سرمچار ان حربوں سے اچھی طرح واقف ہیں، اور میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ انسانی کمزوریوں کے باوجود، بلوچ سرمچار حقیقی آزادی کے رہبر ہیں۔

میں دشمن اور بلوچ قوم کے اندر موجود اس کے دوستوں و دلالوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بلوچستان نہ جافنا ہے، نہ آئرلینڈ، اور نہ ہی سوات۔

انہوں نے کہاکہ دشمن کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مقامی گماشتوں کی مدد کے باوجود وہ بلوچستان کے جغرافیئے سے ناواقف ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ اگر انہیں اپنے نقصانات کا اندازہ ہے، تو بلوچستان کو چھوڑ دینا ہی ان کے لیے بہتر ہوگا۔ وگرنہ، بھیک مانگ کر جنگیں نہیں جیتی جاتیں، اور شکست ان کا مقدر بن چکی ہے۔

ڈاکٹر کے مطابق، گوادر ایئرپورٹ جنگی مقاصد کے لیے تعمیر کیا گیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈیپ سی پورٹ (گہرے سمندر کی بندرگاہ) گوادر بھی جنگی مقاصد کے لیے ہی استعمال ہو رہی ہے، جو ہمیشہ سے ہمارا مؤقف رہا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، گوادر میں چینی سب میرین اور پی ایل اے (پیپلز لبریشن آرمی) کے دستے پہنچ چکے ہیں، جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ یہ گرم پانیوں پر دنیا کا نیا اکھاڑہ بننے جا رہا ہے۔اس سب کے باوجود، دشمن بلوچستان میں اپنے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی اصل تعداد سے ناواقف ہے، یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں، بلکہ ڈی جی آئی ایس آئی کے ہیں۔ اگر اس جنگ میں عالمی قوتیں شامل ہو گئیں، تو ممکن ہے کہ پنجاب اپنے ہمسایہ ملک کا حصہ بن جائے۔