ہدہ جیل میں بھوک ہڑتال
ٹی بی پی اداریہ
مشکاف بولان میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے پاکستان ریلوے کے جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے اور فوج پر مہلک حملوں کو روکنے میں ناکامی کے بعد بلوچستان کی متنازعہ حکومت کے وزراء نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں پر الزامات عائد کیے کہ وہ بلوچ آزادی پسندوں کے سیاسی فرنٹ ہیں اور انہیں گرفتار کرکے بلوچستان میں امن قائم کیا جائے گا۔ تاہم بلوچستان کے معروضی حقائق سے نابلد ریاستی مقتدر قوتوں کی ان غلط پالیسیوں کے باعث بلوچستان کے حالات بہتر ہونے کے بجائے روز افزوں ابتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو 3MPO کے تحت گرفتار ہوئے ایک مہینہ سے زائد گزر چکا ہے اور جیل میں محکمہ انسداد دہشت گردی و ریاستی اداروں کے ناروا سلوک، ماورائے آئین اقدامات اور بیبو بلوچ پر تشدد کرکے ماورائے قانون پشین جیل منتقل کرنے کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ہدہ جیل میں بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔
پاکستان کے مقتدر حلقوں کے قریبی سمجھے جانے والے بلوچستان کے موجودہ متنازعہ وزیر اعلیٰ کے اقدامات بلوچستان کے حالات کی خرابی کا سبب بن رہے ہیں اور متنازعہ حکومتی نمائندے مزاحمتی سیاست سے وابستہ رہنماؤں کے خلاف حقائق کے منافی بیانیہ تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ تاہم ریاستی پابندیوں کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قوم کا اپنے سیاسی قائدین کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنا روز روشن کی طرح عیاں کر رہا ہے کہ بلوچ عوام میں ریاستی بیانیے کو پذیرائی حاصل نہیں ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی عوامی سیاسی تحریک کو گرفتاریاں، مظاہرین کا قتل، تشدد اور جیل میں ناروا سلوک ختم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور ریاستی جبر کے خلاف بھوک ہڑتال کے ذریعے جیل میں بھی وہ اپنی مزاحمت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی تحریکوں کی تاریخ رہی ہے کہ انہیں ریاستی جبر سے ختم نہیں کیا جا سکا۔ سیاسی مزاحمت کو ظلم و جبر سے وقتی طور پر کمزور تو کیا جاسکتا ہے، تاہم عوامی سیاسی مزاحمت کو طاقت کے زور پر نہ پہلے ختم کیا جاسکا ہے اور نہ ہی اب ختم کرنا ممکن ہے۔