بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا ہے کہ آج وہ لوگ بھی خود کو بلوچوں کا خیر خواہ کہنے لگے ہیں، جنہوں نے 16 سال کے معصوم بلوچ بچوں تک کو قید میں رکھا ہے۔ ان بچوں کے امتحانات میں اب صرف ایک دن باقی ہے، مگر کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر کا کردار اس وقت مکمل طور پر ایک ریسسٹ اور فاشسٹ حکمران جیسا ہے۔ تھری ایم پی او جیسے کالے قانون کے تحت نہ تو ان بچوں کی عمر کا خیال رکھا جا رہا ہے، نہ ان کی تعلیم کا۔
انہوں نے کہاکہ ہم اس ظلم کو خندہ پیشانی سے سہہ رہے ہیں، اپنے رہنماؤں کی رہائی کے لیے ہماری سیاسی اور قانونی جدوجہد جاری ہے۔ مگر ان بچوں کے لیے دل خون کے آنسو روتا ہے جنہیں تعلیم کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ کوئٹہ کے ڈی سی کا اینٹی بلوچ رویہ تاریخ میں ایک سیاہ دھبے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے معصوم بچوں کا خون بہایا گیا، ہمارے ساتھیوں کو اذیت ناک قید میں رکھا گیا، اور ہمیں تعلیم جیسے بنیادی حق سے بھی دور رکھا جا رہا ہے۔ یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ہم اپنے قومی شناخت، حق اور انصاف کی بات کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہاکہ ہماری آنے والی نسلیں ان مظالم کو کبھی نہیں بھولیں گی۔ ان ظالم حکمرانوں کے دیئے گئے دکھ، ہماری نفرت کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔