بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ ایک طرف عدلیہ انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے، تو دوسری جانب غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے اسیران کے لواحقین کو اپنی آواز بلند کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبگر بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبو بلوچ اور دیگر سیاسی اسیران کی غیر آئینی حراست کے خلاف اُن کے اہلِ خانہ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کیا، جسے پولیس نے زبردستی اکھاڑ دیا۔ اس کے باوجود لواحقین سخت گرمی میں کھلے آسمان تلے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ اس احتجاجی کیمپ کا مقصد ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنا اور بے گناہ اسیران کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنا ہے۔ مگر پولیس کی جانب سے کیمپ لگانے سے روکنا، شہریوں کے اظہارِ رائے اور احتجاج کے آئینی حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ ہم کوئٹہ کے تمام شہریوں، سماجی و سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور باضمیر افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس احتجاجی کیمپ میں شریک ہو کر متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ یکجہتی کریں اور اُن کی آواز کو تقویت دیں۔