کوئٹہ: زیرِ حراست ڈاکٹر ماہ رنگ و دیگر پر تشدد، بیبو بلوچ جیل سے نامعلوم مقام منتقل

223

کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ نے پولیس حراست میں بلوچ سیاسی کارکنان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد لاپتہ کرنے کی کوشش کی۔

کوئٹہ کی ہدہ جیل سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سرگرم رکن اور کارکن بیبو بلوچ کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے زبردستی نکال کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے، جبکہ اس دوران سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے بی وائی سی رہنماؤں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور گلزادی بلوچ پر بھی تشدد کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ہدہ جیل میں قید خاتون رہنماؤں پر تشدد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے ساتھیوں کو کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ اسی دوران بیبو بلوچ، جو ایک ماہ سے ہدہ جیل میں قید تھیں، کو گھسیٹ کر لے جایا گیا اور ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔

واضح رہے کہ بیبو بلوچ کو تھری ایم پی او (3MPO) کے تحت ایک ماہ سے زائد عرصے سے ہدہ جیل میں قید رکھا گیا ہے، اور ان کی ضمانت کی اپیل بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے مسترد کر دی گئی تھی۔ وہ معروف کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ، گلزادی بلوچ اور شاہ جی صبغت اللہ سمیت دیگر رہنماؤں کے ساتھ حراست میں تھیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پارٹی رہنماؤں پر تشدد اور بیبو بلوچ کی جیل سے جبری گمشدگی کے حوالے سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ یہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ریاستی دہشت گردی کی کھلی مثال ہے۔ خواتین کارکنان کو نشانہ بنانا ریاست کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد بلوچ مزاحمت کو کچلنا اور حق کی آواز کو خاموش کرنا ہے۔ ہم ریاست اور اس کے اداروں کو بیبو بلوچ کی سلامتی کا مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

بیبو بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گزشتہ ایک ماہ سے تھری ایم پی او کے تحت کوئٹہ کی ہدہ جیل میں قید ہیں۔ عدالت نے ان کی درخواستِ ضمانت مسترد کرتے ہوئے کیس حکومتِ بلوچستان کو بھیج دیا تھا، جہاں گزشتہ روز حکومت نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ کی تھری ایم پی او کے تحت نظر بندی میں مزید 30 دن کی توسیع کر دی۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ کو 22 مارچ 2025 کو کوئٹہ میں ایک پرامن احتجاج کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف تھری ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جو کہ پاکستان میں اکثر سیاسی کارکنان کو بغیر کسی باقاعدہ ٹرائل کے طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بیبو بلوچ کو فوری منظرِ عام پر لانے اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کو بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی “بی ٹیم” سمجھا جاتا ہے، جو پہلے سے زیرِ حراست افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے اور لوگوں کو اغوا کرنے کے متعدد واقعات میں ملوث رہی ہے۔

بلوچستان کی سیاسی و سماجی تنظیموں سمیت عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور رہنماؤں نے حکومت اور فورسز کے ان اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر بلوچ سیاسی کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔