کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ جاری

66

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5796 دن مکمل ہوگئے ہیں، نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما نصیر احمد شاہوانی، بی اسی او پجار کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بلوچ، ہزارہ برادری سے ضامن چنگیزئی نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچ نسل کشی اور پاکستانی ریاستی جارحیت کے خلاف بلوچ قوم مسلسل احتجاج کررہی ہے پچھلے 9 سالوں سے ہم پرامن انداز میں آواز بلند کررہے ہیں آج جہاں بھی بلوچ آباد ہے وہ سیاسی تنظیم یا نظم و ضبط کے دائرے میں نہ بھی ہو تب بھی جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کی خواہش رکھتا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ میری ناقص عقل کے مطابق حقیقی جدوجہد کرنے والے افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام بلوچوں کو چاہے وہ وطن میں ہوں یا سمندر پار یکجا کریں سب کو ایک منظم اور مربوط ڈسپلن کے سانچے میں لاکر لاپتہ افراد کی بازیابی کی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر مؤثر اور مربوط بنایا جائے کیونکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق صحیح فیصلے کرنا ہی سودمند ثابت ہوتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کی حرکات اور پارلیمانی جماعتوں کے حالیہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان بلوچستان میں ایک نیا بڑا اور فیصلہ کن آپریشن کرنے کی تیاری کررہا ہے اگرچہ 2004 سے اب تک بلوچ نسل کشی اور فوجی کارروائیاں جاری ہیں مگر اس بار کی تیاری غیرمعمولی نظر آتی ہے۔

انکا مزید کہنا تھا فوج، ایف سی، سی ٹی ڈی اور بعض پارلیمانی جماعتیں مل کر ایسا منصوبہ بنا رہی ہیں جس کا ہدف ممکنہ طور پر مکران جھالاوان اور بولان کے علاقے ہوں گے۔

انکا آخر میں کہنا تھا اگرچہ پاکستانی ریاست کی معاشی حالت اتنی مستحکم نہیں کہ پورے بلوچستان میں ایک ساتھ بڑا آپریشن کرسکے لیکن کچھ نہ کچھ چھپا ہوا ضرور ہے اور شاید مخصوص علاقوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔