کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5795 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ، حمیدہ نور اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
اس موقع پر کیمپ میں آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کی پرامن جدوجہد کے ردعمل میں ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ عوام کو مسلسل دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس، سی ٹی ڈی، ایف سی اور خفیہ اداروں کی جانب سے گھروں پر چھاپے، چادر و چار دیواری کی پامالی اور تحریک سے وابستگی کے شبہے میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ماما قدیر کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں سینکڑوں بلوچ شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جن میں کئی گمنام خواتین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچوں کے ساتھ نسلی امتیاز برتا جا رہا ہے، جبکہ باضمیر قوم دوست افراد کو نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے۔ دورانِ حراست مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی جیسے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ اب نہ صرف بلوچستان اسمبلی بلکہ قومی اسمبلی، عدلیہ اور بین الاقوامی سطح پر بھی موضوع بحث بن چکا ہے۔ ماما قدیر نے سوال اٹھایا کہ ان جرائم میں ملوث بااثر افراد اور گروہوں کو بے نقاب اور گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ خفیہ ادارے براہ راست ان مسلح گروہوں کی سرپرستی کر رہے ہیں جو اغوا، منشیات فروشی اور قتل جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ ایسے افراد کسی قسم کے احتساب یا عدالتی کارروائی سے بے خوف ہیں