زیر حراست بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء سمی دین بلوچ کے لواحقین نے عید کے پہلے کراچی سنٹرل جیل کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ سمی دین بلوچ جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ عید کا دن کراچی پریس کلب کے سامنے اپنے والد ڈاکٹر دین محمد اور دوسرے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاج میں گزار دیتی ہیں ،لیکن اس سال عید کے دن سمی دین، دوسرے جبری گمشدہ افراد کے لیے احتجاج کے بجائے خود پابند سلاسل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ سمی دین اپنی پچپن کی زندگی احتجاج میں گزار گئیں، پچھلے ۱۶ سالوں سے اپنے والد ڈاکٹر دین جان کیلئے سراپا احتجاج ہیں، جنکو دوران ڈیوٹی جبری گمشدہ کر دیا گیا، تب سے لیکر آج تک سمی دین کی اعیاد اور خوشیوں کے ایّام اپنے والد سمیت باقی تمام جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے ریلیوں، دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں میں گزر گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سمی دین کی جدوجہد صرف اپنے والد کے لئے نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر اس جبری گمشدہ افراد کے خاندان کی جدوجہد ہے جو ریاست کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ سمی دین کی سالوں سے جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد نے اسے ایک توانا اور موثر آواز بنا دیا ہے اور وہ پورے بلوچستان کے درد کو اپنا درد سمجھ کر آپ صحافیوں کے سامنے بیان کرتی ہیں، تاکہ آپ کے زریعے طاقت کے ایوانوں میں ان کی آواز پہنچ سکے لیکن برسراقتداری قوتوں نے غیر آئینی طور پر انھیں پابند سلاسل کرکے خاموش کرانا چاہا ہے ۔
مہلب بلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں متواتر رونما ہوتے واقعات، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل، ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ اور بیبگر سمیت سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی غیر آئینی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے تسلسل میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور کراچی کے سول سوسائٹی نے پرامن احتجاج کیا لیکن سندھ پولیس نے اس احتجاج پر کریک ڈاؤن کرکے سمی دین سمیت دوسرے مظاہرین کو گرفتار کر لیا لیکن عدالت کےرہائی کے باوجود عدالت کے احکامات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے احکامات پر انہیں دوبارہ ۳ ایم پی او کے تحت ایک مہینے کے لئے قید کردیا گیا ہے تاکہ جبری گمشدگی کے مسئلے کو طاقت کے زور پر خاموش کرایا جاسکے، جو ہرگز ممکن نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی پرچارک ہیں، لیکن ان کی سندھ حکومت یہی حقوق بلوچ خواتین کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے پر سمی دین بلوچ کو ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ فوجی آمر ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں محترمہ بینظیر بھٹو کو گرفتار کرکے انہیں جیلوں میں قید رکھا گیا اور آج محترمہ بینظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت استعماری قوانین کو بلوچ خواتین کے خلاف استعمال کرکے انہیں جیلوں میں پابند سلاسل کررہے ہیں۔ جمہوریت کی علمبردار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بلوچ خواتین کی آئینی اور پر امن تحریک کو ختم کرنے کے لئے مارشل لاء دور کے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ جبری گمشدگیوں اور ریاست کے طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی پالیسیوں سے بلوچستان میں ہزاروں خاندان متاثر ہیں اور پاکستان کے اعٰلی عدالتیں انصاف مہیا کرنے سے قاصر ہیں، جس کے سبب بلوچوں کے لئے احتجاج کا راستہ بچتا ہے کہ انصاف کے حصول کے لئے آواز اٹھاتے رہیں۔ ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین کو گرفتار کر کے ریاست کے طاقتور حلقے سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں خاموش کرائیں گے لیکن جب تک ہمارے والد ڈاکٹر دین محمد سمیت بلوچستان بھر میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ نہیں ہوتا، احتجاج کرکے آواز بلند کرنے والوں کو خاموش نہیں کرایا جاسکتا ہے۔
سمی دین، ماہ رنگ اور دوسری خواتین عید کا دن جیل میں گزاریں گی، لیکن پورا بلوچستان عید کے دن جبری گمشدگیوں، ریاست کے برسراقتدار قوتوں کی غلط پالیسیوں کے خلاف اور جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہا ہے۔ جبری گمشدگی صرف ہمارے خاندان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ میری طرح سینکڑوں بچوں کے والد جبری گمشدہ ہیں اور ان کی بازیابی کے بغیر وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ اپنے والد ڈاکٹر دین محمد اور دوسرے خاندانوں کے پیاروں کی بازیابی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ میں ریاست کے مقتدر حلقوں اور پیپلز پارٹی کے سندھ حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ میری بہن سمی دین بلوچ پر بے بنیاد الزامات ختم کرکے انہیں جیل سے رہا کر دیا جائے.