ڈاکٹر ماہ رنگ کیس، معزز عدالت حکومت کے سامنے اپنی آئینی اور قانونی اختیارات سے دستبردار ہو گئی – بی وائی سی

197

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ہم آج آپ سے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ بمعہ باقی مقید ساتھیوں کے کیس کے حوالے سے مخاطب ہیں۔ اس پریس کانفرنس کا مقصد اس کیس کے پس منظر، بلوچستان میں عدالتی نظام پر دباؤ کے اثرات، اور بلوچ سیاسی اسیران کے خلاف متبادل قانونی دفعات کے استعمال سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کو 22 مارچ کو کوئٹہ کے علاقے سریاب سے اُس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ فورسز کے جارحانہ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں شہید ہونے والے دو نوجوانوں کی میتوں کے ساتھ پرامن دھرنے میں شریک تھیں۔ پولیس نے دھرنے پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف میتوں اور ان کے لواحقین کو گرفتار کیا بلکہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبوں بلوچ اور دو دیگر خواتین کو بھی حراست میں لیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ گرفتاری کے پہلے روز کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی، تاہم اگلے روز ضلعی انتظامیہ نے میڈیا بریفنگ میں اطلاع دی کہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کو سیکشن 3 ایم پی او (Maintenance of Public Order) کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔

مزید کہاکہ ہم اس موقع پر یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ 3 ایم پی او ایک قانونی عمل ہے جس کا نفاذ 2011 کے ایکٹ کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق، ڈپٹی کمشنر متعلقہ فرد کو نوٹس کے ذریعے الزامات سے آگاہ کرتا ہے، اور اگر نوٹس فرد تک نہ پہنچے تو اخبار میں اشتہار شائع کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حکومت اپنے الزامات کے ثبوت پیش کرتی ہے اور متعلقہ فرد کو اپنا دفاع کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اگر الزامات ثابت ہو جائیں تو پھر گرفتار کیا جاتا ہے، اور کیس کی نمائندگی ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ لیکن ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کے کیس میں، دفعہ 3 اور 6 کے تحت درکار قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ یعنی ایم پی او ایکٹ 2011 کی مکمل پیروی نہیں کی گئی، جس بنا پر ہمارا مطالبہ تھا کہ ڈی سی کا جاری کردہ نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار دے کر اسے خارج کیا جائے۔

اس سلسلے میں ہم بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ہمارے وکلاء ٹیم نے معزز عدالت کے سامنے کیس کے تمام پہلوں کو واضح کیا جس پر یہی امید تھی کہ معزز عدالت قانونی اور آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہیں اس کیس کا فیصلہ سنائے گے لیکن افسوس کے معزز عدالت حکومت کے سامنے اپنی آئینی اور قانونی اختیارات سے دستبردار ہو گئے۔

انکا کہنا تھا کہ گزشتہ تین دن سے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کے کیس میں فیصلہ متوقع تھا۔ جمعرات کے روز دلائل مکمل ہونے کے بعد جمعہ کو فیصلہ سنایا جانا تھا، لیکن ریاستی دباؤ کی بنا پر مسلسل تاخیر کی گئی۔ پیر کے روز بھی فیصلہ سنایا نہیں گیا، جبکہ آج عدالت کو فیصلہ سنانا تھا۔ اس کے برعکس، معزز عدالت نے کیس کو مزید سماعت کے لیے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو منتقل کر دیا۔

یہ ایک غیر معمولی اور حیران کن اقدام ہے۔ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر، عدالت کی بجائے انتظامیہ کو معاملہ بھیجنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اگر عدالت ہمارے خلاف فیصلہ بھی سنا دیتی تو ہمارے پاس سپریم کورٹ جانے کا قانونی حق موجود ہوتا۔ تاہم، اس فیصلے کے نتیجے میں اب ہمارے لیے سپریم کورٹ کا راستہ بھی وقتی طور پر بند ہو چکا ہے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بنائی جانے والی کمیٹی، جو بیوروکریٹس پر مشتمل ہوگی، اس کیس کا فیصلہ کرے گی۔ اس کمیٹی کے فیصلے کے لیے کوئی مقررہ مدت نہیں، وہ ایک دن لیں یا ایک سال، کوئی پابندی نہیں۔ اگر کمیٹی کا فیصلہ بھی خلافِ انصاف ہوا، تو ہمیں دوبارہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا، اور وہاں سے سپریم کورٹ تک جانا ہوگا۔ یہ ایک جان بوجھ کر بنائی گئی پیچیدہ راہ داری ہے، جس کا مقصد صرف تاخیر اور انصاف سے انکار ہے۔

پریس کانفرنس میں کہاکہ واضح رہے کہ اس کیس میں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ بی وائی سی کے دیگر کارکنان کے کیسز کو بھی شامل کیا گیا ہے، اور اس فیصلے کا اطلاق ان تمام کیسز پر ہوگا، یہ تمام تفصیلات اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس کیس میں جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے، اور قانونی تقاضوں کو نظرانداز کر کے غیرقانونی اقدامات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہم عدلیہ، وکلا برادری اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کردار ادا کریں۔مزید اس غیر قانونی اقدامات کے خلاف بی وائی سی اپنے آئیندہ لائحہ عمل کا اعلان جلد کرے گی۔