معروف بلوچ حقوق کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو 22 مارچ 2025 کو کوئٹہ میں ایک پرامن احتجاج کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف تھری ایم پی او (3MPO) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جو کہ پاکستان میں اکثر سیاسی کارکنان کو بغیر کسی باقاعدہ ٹرائل کے حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
عدالت میں اس مقدمے کا فیصلہ گذشتہ ہفتے جمعہ کو سنایا جانا تھا، تاہم مبینہ طور پر پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دباؤ پر فیصلے میں بارہا تاخیر کی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق سیکیورٹی ادارے صوبائی حکومت کے ذریعے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پر چند غیر معمولی اور غیر آئینی شرائط پر دستخط کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں جنہیں انہوں نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
مبینہ شرائط کیا ہیں؟
ذرائع، صحافیوں اور ماہ رنگ کے قریبی حلقوں کے مطابق ریاستی ادارے ان سے جو شرائط منوانا چاہتے ہیں ان میں شامل ہیں:
• کسی بھی “دہشت گرد” سرگرمی سے لاتعلقی کا اعلان
• کسی بھی تنظیم سے تعلق نہ رکھنے کا وعدہ جو عوامی بے چینی پیدا کر سکتی ہو
• ریاستی اداروں کے ساتھ مذہبی معاملات میں تعاون
• مشکوک سرگرمیوں یا افراد کی اطلاع فوری پولیس کو دینا
• گھر سے باہر نکلنے یا کسی سے ملاقات کے لیے پولیس سے پیشگی اجازت لینا
• اسکول، پارک، ہوٹل، تھیٹر، ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ یا کسی بھی عوامی جگہ پر جانے کی ممانعت
• سیاسی جلسے، میلوں یا کسی عوامی اجتماع میں شرکت سے قبل باقاعدہ اجازت لینا
سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق یہ تمام شرائط کسی قانونی دائرہ اختیار سے باہر ہیں اور عملی طور پر نظر بندی کے مترادف ہیں۔ قانونی ماہرین اور انسانی حقوق تنظیموں نے ان شرائط کو آئین پاکستان اور انسانی آزادیوں کے خلاف قرار دیا ہے۔
بلوچستان بھر میں احتجاج اور گرفتاریاں
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر بی وائی سی رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان بھر میں پرزور احتجاج جاری ہے۔ مختلف شہروں بشمول تربت، پنجگور، گوادر، خضدار، سوراب، نوشکی، قلات اور آواران میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
احتجاجی ریلیوں میں نوجوان، طلبہ، خواتین اور بزرگوں کی بڑی تعداد شریک ہے جو بی وائی سی پر کریک ڈاؤن، ماہ رنگ سمیت بی وائی سی کارکنان اور رہنماؤں کی گرفتاری، جبری گمشدگیوں، ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ریاستی ردعمل کے طور پر پولیس مختلف اضلاع میں متعدد کارکنوں کو گرفتار کر چکی ہے۔ کچھ علاقوں میں سیکشن 144 نافذ کر کے عوامی اجتماع پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ کئی مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا ہے اور مظاہرین پر متعدد ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔
ان واقعات کے خلاف مقامی سطح پر احتجاج کے علاوہ عالمی فورمز پر بھی بڑی تعداد میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام کے ارکان نے آواز بلند کرتے ہوئے پاکستان سے اپنی غیر قانونی پالیسیوں کو ترک کرنے سمیت بی وائی سی پر کریک ڈاؤن روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی، جس کی قیادت ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر خواتین کر رہی ہیں، نے تنظیمی ساتھیوں کی گرفتاری پر دھرنوں و احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ سرکاری سطح پر بلوچستان میں ان مظاہرین کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ اور سڑکیں بھی بند کی گئی ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری اور مظاہرین پر تشدد کے خلاف کوئٹہ کے قریب بلوچستان نیشنل پارٹی کا دھرنا بھی گذشتہ تین ہفتوں سے جاری ہے جبکہ اس مارچ کو روکنے کے لیے کوئٹہ شہر گذشتہ کئی روز سے حکومت نے کنٹینرز لگا کر بند کر دیا ہے۔
بلوچستان میں بلوچ عوام اور انسانی حقوق تنظیموں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کارکنان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر ریاستی جبر کا سلسلہ بند نہ ہوا تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔