بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد تاحال لاپتہ ہیں، خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے صبیحہ بلوچ کے گرفتاری دینے یا بی وائی سی سے مستعفی ہونے کے شرائط رکھے گئے ہیں۔
بی وائی سی رہنماء کے والد میر بشیر احمد کو پانچ اپریل سے جبری طور پر لاپتہ ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری بیان میں ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا میرے والد کو کسی جرم میں نہیں بلکہ میرے سیاسی مؤقف کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے اور یہ قانون کا نفاذ نہیں بلکہ سیاسی بلیک میلنگ ہے۔
ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ صبیحہ بلوچ کے والد پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں ہے۔ اہلکاروں کی جانب سے لواحقین کو بذریعہ بتایا کہ صبیحہ بلوچ گرفتاری دیں یا پھر بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مستعفی ہوجائے۔
پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے میر بشیر احمد کو قتل کرنے سمیت خاندان کے دیگر افراد کو جبری طور لاپتہ کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہے۔
جنیوا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے محافظوں کی خصوصی نمائندہ میری لاولر نے ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے خلاف کاروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں میری لاولر نے کہا ہے کہ انہیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کو پاکستان میں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے، جب کہ حکام نے ان کے انسانی حقوق کے کام کے بدلے میں ان کے والد کو بھی انتقامی کارروائی کے طور پر حراست میں لے رکھا ہے۔
میری لاولر نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں حکام فوری طور پر صبیحہ بلوچ کے خلاف ریاستی انتقامی کارروائیاں بند کریں اور انہیں انسانی حقوق کے تحفظ، دفاع اور فروغ کے لیے آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
واضح رہے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو جیل میں مقید کیا گیا جبکہ سمی دین بلوچ کو کراچی میں تشدد کے بعد حراست میں لیا گیا جنہوں بعد ازاں رہا کیا گیا۔
بی وائی سی ارکان بیبو بلوچ اور گل زادی بلوچ کو بھی جیل میں رکھا گیا ہے جبکہ کراچی و حب میں متحرک بی وائی سی ارکان فوزیہ بلوچ اور ماہ زیب بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کے چوبیس گھنٹے بعد رہا گیا۔
بلوچ خواتین پر تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف کوئٹہ سے متصل لکپاس کے مقام پر آج 13 ویں روز سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں بدستور دھرنا جاری ہے۔ بلوچستان حکومت کے احکامات پر کوئٹہ جانے والی تمام راستوں پر کنٹینرز رکھ کر اور خندقیں کھود کر بند کردیئے گئے ہیں۔