ظہیر احمد بلوچ کی گمشدگی کو 10 برس مکمل ہونے پر پنجگور کے علاقے خدابادان، مواچھ بازار میں ایک سیمنار کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی، سماجی، اور وکلا رہنماؤں نے شرکت کی جبکہ بی وائی سی کے رہنماؤں نے آڈیو پیغامات کے ذریعے خطاب کیا۔
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ظہیر احمد کے بھائی کفایت اللہ بلوچ نے کہا کہ ان کے بھائی کو 13 اپریل 2015 کو کراچی جاتے ہوئے ایک چیک پوسٹ کے قریب سے اغوا کیا گیا اور آج تک اس کا کوئی پتہ نہیں۔ انہوں نے کہا، “ہم نے بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی، مقتدر حلقوں سے ملاقاتیں کیں، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔”
انہوں نے کہا کہ ظہیر احمد کی طرح ہزاروں افراد لاپتہ ہیں اور ان کے اہل خانہ عید جیسے خوشی کے مواقع پر بھی اپنے پیاروں کی تصاویر لے کر سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت خود آئین و قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور اب خواتین کو بھی اغوا کیا جا رہا ہے۔
کفایت اللہ نے کہا کہ سردار اختر مینگل حکومت نہیں، صرف بلوچ خواتین کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم نے پیپلز پارٹی جیسے عوام دشمن پلیٹ فارم سے سیاست کی، جس پر اپنی قوم سے معافی مانگتا ہوں۔”
انہوں نے کہا کہ 2022 تک میرے بھائی کے کوئٹہ میں قید ہونے کے اطلاعات تھے، سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے دورہ پنجگور کے موقع پر بازیابی کا وعدہ بھی کیا تھا مگر آج تک رہائی نہیں ہوئی، پُرامن احتجاج کو سبوثاز کرنے کےلئے ڈپٹی کمشنر پنجگور مختلف حربے استعمال کررہا ہے بلوچ قوم اب تنگ آچکا ہے۔
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ظہیر احمد بلوچ کی بیٹی ادیبہ ظہیر نے کہا کہ اگر ان کے والد نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے پنجگور کے سماجی کارکن ملا فرہاد کی گرفتاری کی بھی شدید مذمت کی۔
سیمنار میں بی وائی سی کی مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، سمی دین بلوچ اور ایمان مزاری کے آڈیو پیغامات بھی سنوائے گئے۔
عائشہ، زویہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ اگر ان کے والد نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے امان اللہ کریم، مسلم لیگ ن کے ڈویژنل صدر اشرف ساگر، بی این پی کے ضلعی جنرل سیکریٹری قدیر احمد، اور نیشنل پارٹی کے سابق صدر حاجی صالح محمد بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کا فیصلہ عدالت کرے۔
امان اللہ کریم نے زور دیا کہ قیدِ تنہائی اور لاپتہ افراد کا مسئلہ آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا، “پولیس کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرے۔ ہم بار کے پلیٹ فارم سے اس جدوجہد کو ہر فورم پر جاری رکھیں گے۔”