پنجگور: حق دو تحریک کا رہنما گرفتار

131

پنجگور پولیس نے حق دو تحریک کے رہنما ملا فرہاد کو گرفتار کرلیا۔ ذرائع کے مطابق انہیں 3 ایم پی او (مینٹیننس آف پبلک آرڈر) کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔

گرفتاری کی وجوہات کے بارے میں تاحال سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

تری ایم پی او کیا ہے۔

“3 ایم پی او” یا “تین ایم پی او” دراصل “مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس” کی ایک شق ہے، جو امن و امان قائم رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

یہ شق حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو، جو عوامی امن و امان کے لیے خطرہ ہو، بغیر مقدمہ درج کیے وقتی طور پر گرفتار اور نظر بند کر سکتی ہے۔

ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) یا ضلعی انتظامیہ کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو 3 ایم پی او کے تحت 30 دن تک حراست میں رکھ سکتی ہے، جس میں مزید توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔

عام طور پر جس شخص کو 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے، اسے ایک نوٹس دیا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ اس کی گرفتاری کیوں کی گئی ہے۔ تاہم، اس میں باقاعدہ عدالت میں ٹرائل نہیں ہوتا، کیونکہ یہ ایک احتیاطی اقدام ہوتا ہے، سزا نہیں۔

یہ قانون بعض اوقات حکومت مخالف آوازوں یا سیاسی کارکنوں کے خلاف بھی استعمال ہوتا ہے، جس پر انسانی حقوق کے ادارے اور ناقدین اعتراض کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ اس شق کا غلط استعمال اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

اس قانون کا پس منظر

اس قانون کی جڑیں برطانوی راج کے دور میں موجود پبلک سیفٹی ایکٹ اور ڈیفنس آف انڈیا رولز میں ملتی ہیں، جن کا مقصد آزادی کی تحریکوں اور سیاسی بغاوتوں کو دبانا تھا۔

برطانوی حکومت نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے قوانین متعارف کروائے جن کے ذریعے کسی بھی “مشکوک” شخص کو بغیر عدالتی کارروائی کے نظر بند کیا جا سکتا تھا۔ ان قوانین کو “احتیاطی نظربندی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے دور میں اسی تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم پی او متعارف کروایا گیا۔ یہ قانون “امن عامہ” کو قائم رکھنے کے نام پر حکومت کو غیر معمولی اختیارات دیتا تھا۔

ایم پی او کی شق 3 خاص طور پر اہم ہے کیونکہ اس کے تحت انتظامیہ (خصوصاً ڈپٹی کمشنر) کو اختیار دیا گیا کہ وہ کسی شخص کو “عوامی نظم و نسق” کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ابتدائی طور پر 30 دن تک حراست میں رکھ سکتی ہے، جس میں توسیع بھی ممکن ہے۔ اس کے لیے کسی باقاعدہ مقدمے یا عدالت کے حکم کی ضرورت نہیں ہوتی یہ شق مختلف حکومتوں کے ادوار میں خاص طور پر سیاسی کارکنوں، مذہبی شخصیات، مظاہرین، اور حکومت مخالف آوازوں کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس پر وقتاً فوقتاً انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلا تنظیموں اور میڈیا نے تنقید کی ہے۔

حالیہ دنوں اسی قانون کے تحت بلوچستان بھر میں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، بی وائی سی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ، بیو، بیبگر، گلزادی اور شاجی صبغت اللہ سمیت کئی رہنما اسی قانون کے تحت پابند سلاسل ہیں۔

جبکہ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے خلاف بھی تری ایم پی او کے آرڈر جاری کئے گئے ہیں تاہم ابتک اس کی گرفتاری ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور رہنما کے خلاف اس قانون کے استعمال پہ انسانی حقوق اور دیگر تنظیمیں شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔