پرامن آوازوں کو بیڑیوں میں جھکڑنے سے آوازیں اٹھنا ختم نہیں ہونگی – سمی دین بلوچ

177

بلوچ یکجہتی کمیٹی رہنماء اور انسانی حقوق کی علمبردار سمی دین بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر کہا ہے کہ امن محض ایک خواہش نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں، بلکہ ایک ایسی ناقابلِ انکار حقیقت ہے جو زندگی کے ابدی فلسفے میں بسی ہے۔ آج ہمارے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن اس لیے جاری ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، ہم انصاف اور برابری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں گلی سڑی لاشیں اور گمشدگیاں نہ دیں ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے حقوق تسلیم کیے جائیں۔ لیکن ریاست اس پرامن فلسفے کو طاقت کے ذریعے کچلنے پر تُلی ہوئی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ وہ اس للکار کو، اس جبر میں پروان چڑھی آواز کو، اس پرامن جدوجہد کو دباکر اپنی فتح کا اعلان کرے گی، تو یہ اس کی خطرناک غلط فہمی ہے۔ یہ آواز محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ان آہوں، سسکیوں، فریادوں اور آنسوؤں کا نچوڑ ہے جو نسل در نسل ہمارے سینوں میں سلگتے رہے ہیں اور اب ہمارے لیے طاقت بن چکے ہیں۔ یہ آواز صرف امید کی نہیں بلکہ عزم، حوصلے اور شعور کی نمائندہ ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی صدا نہیں، بلکہ پوری قوم کے اجتماعی ضمیر کی پکار ہے۔

“ہمیں قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگائی جاسکتی ہیں، ماہ رنگ بیبو بلوچ، شاہ جی بیبگر اور سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا جا سکتا ہے، سیاسی کارکنوں کے والدین اور عزیزوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا سکتا ہے، انتقامی کارروائیوں کی ہر حد عبور کی جاسکتی ہے لیکن جدوجہد کے اس فلسفے کو زنجیروں میں جکڑنا ممکن نہیں جو سچ، انصاف اور انسانی وقار پر قائم ہے۔”

انہوں نے لکھا ک جب جبر کا سہارا لیا جاتا ہے پرامن آوازوں کو بیڑیوں میں جھکڑا جاتا ہے تو اس سے وہ آوازیں اٹھنا ختم نہیں ہونگی بلکہ یہ عمل خود ریاست کی اخلاقی اور سیاسی ساکھ پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ آج ریاستِ پاکستان اپنی ہٹ دھرمی، جارحیت اور طاقت کے زعم میں اس تاثر کو حقیقت میں بدل چکی ہے کہ یہاں پرامن جدوجہد کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اپنی تمام تر مشینری کو ایک پرامن تحریک کو کچلنے پر لگا کر وہ یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس سرزمین پر شناخت، خودمختاری اور حقوق کے لیے آواز اٹھانا جرم ہے۔

سمی دین نے لکھا کہ آج جب بلوچ مرد و زن ریاستی جبر سے بیزار ہوکر مزاحمت کی شکل میں کھڑے ہیں، جبر کے سامنے انکاری ہیں، تو سوال یہ ہے کہ انہیں اس مقام تک کون لایا؟ کیا ریاست خود اس کا سبب نہیں؟ کیا تشدد اور نظراندازی نہیں ہے؟ اگر جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر سنجیدگی دکھائی جاتی، اگر پرامن آوازوں کو دیوار سے نہ لگایا جاتا، اگر بلوچ کو محض بلوچ ہی نہیں بلکہ ایک انسان سمجھا جاتا، تو شاید یہ مزاحمت اس قدر شدید نہ ہوتی۔ اب بھی اگر ریاست اپنی طاقت صرف آوازوں کو دبانے، اور آوازوں کو خاموش کرنے میں استعمال کرے گی، تو اسے جان لینا چاہیے کہ بلوچ کے پاس انکار کا حوصلہ، مزاحمت کی جرات موجود ہے جسے نہ شیلنگ ختم کر سکتی ہے، نہ گولیاں، نہ لاٹھیاں البتہ بلوچستان کو مزید ایک آگ کی طرف دھکیل دیں گے۔

انہوں نے لکھا کہ اگر ریاست واقعی بلوچستان کو میدانِ جنگ بنانے سے گریزاں ہے، تو اُسے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ اس کی پالیسیوں سے بلوچ قوم کو کیا پیغام مل رہا ہے مزاحمت کا، یا مکمل بیگانگی کا؟ وہ دبی ہوئی آوازیں، جنہیں دہائیوں تک خاموش رکھا گیا، اب گونج بن چکی ہیں۔ یہ گونج اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاست بندوق کے بجائے فہم و ادراک کا راستہ اپنائے۔ بلوچ کو محض ایک مسئلہ نہیں، بلکہ ایک باشعور قوم تسلیم کرے اور اس کی آواز کو سنا جائے، نہ کہ دبایا جائے۔