نال، مزاحمت، بیزنجوں اسکوائیڈ کی سازش اور شاہ جان کی شہادت – ہومر بلوچ

79

نال، مزاحمت، بیزنجوں اسکوائیڈ کی سازش اور شاہ جان کی شہادت

تحریر: ہومر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان محض ایک خطہ نہیں، بلکہ ایک نوحہ ہے— ایک داستان جو خون سے لکھی گئی، آنسوؤں سے دھلی، اور مزاحمت کی آگ میں تپ کر امر ہو گئی۔ یہاں کی مٹی میں صرف معدنیات نہیں، شہیدوں کا لہو بھی دفن ہے، جو وقت کے ساتھ زمین سے سرگوشیوں کی صورت میں ابھرتا ہے۔ پہاڑوں کی خاموشی درحقیقت خاموشی نہیں، بلکہ ایک گونج ہے— وہ گونج جو صدیوں سے مزاحمت کا گیت گاتی آئی ہے۔

یہ وہ سرزمین ہے جہاں ہوا میں صرف گرد و غبار نہیں، بغاوت کی سرگوشیاں بھی گھلی ہوئی ہیں، جو ہر اس کان میں ارتعاش پیدا کرتی ہیں جو سننے کا ہنر جانتا ہو۔ وسائل سے مالا مال یہ دھرتی خود اپنی دولت کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے، اور اس کے باسیوں پر غربت محض ایک معاشی حقیقت نہیں، بلکہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر مسلط کی گئی ہے۔

یہاں طاقت کی واحد زبان بندوق کی گرج ہے، اور اصول صرف ایک— اطاعت کرو یا فنا ہو جاؤ! مگر تاریخ نے ہمیشہ گواہی دی ہے کہ جہاں اطاعت کا مطالبہ ہو، وہاں بغاوت جنم لیتی ہے۔ جہاں موت کی تلوار سر پر لٹکائی جاتی ہے، وہاں زندگی خود کو ایک نئی شکل میں زندہ رکھتی ہے۔ یہی بلوچستان کی اصل حقیقت ہے— ایک ایسی کہانی جو جبر کے اندھیروں میں جلتی ہوئی شمع کی مانند ہے، جسے بجھانے والے ہر بار ناکام ہوتے ہیں، اور وہ ہر بار پہلے سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے۔

بلوچستان میں ریاستی طاقت ہمیشہ عسکری قوت کے سہارے قائم رہی ہے۔ جب بلوچ عوام نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تو انہیں گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں، اور اجتماعی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو نوآبادیاتی طاقتوں نے الجزائر، ویتنام اور فلسطین میں اپنائی تھی۔ آج بلوچستان میں یہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، جہاں نہ صرف مزاحمت کار بلکہ ان کے خاندان بھی نشانے پر ہیں۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، فوجی آپریشنز اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ایک عام معمول بن چکی ہیں۔ ہر بلوچ نوجوان کو ممکنہ باغی سمجھا جاتا ہے اور پورے علاقوں کو جنگی زون میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس جبر کا مقصد بلوچ عوام کو خوف میں مبتلا رکھنا اور کسی بھی قسم کی سیاسی بیداری کو کچلنا ہے۔

ریاست کی پالیسیوں میں صرف مسلح مزاحمت کار ہی نہیں، بلکہ ان کے اہلِ خانہ بھی نشانے پر ہوتے ہیں۔ گھروں کو جلانا، خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا، اور گاؤں کے گاؤں ویران کرنا اس پالیسی کا حصہ ہے۔ ایڈورڈ سعید لکھتے ہیں کہ قابض ریاستیں ہمیشہ محکوم اقوام کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنا کر بغاوت کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے۔

نال، جو بلوچستان کی جدوجہد کا ایک اہم مرکز رہا ہے، آج بھی اس جنگ کی گواہی دے رہا ہے۔ 16 سالوں سے لاپتہ اسیئر چیئرمین زاکر مجید اور 11 سالوں سے لاپتہ بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین زاہد کرد کی غیر موجودگی کے باوجود، ان کا نظریہ زندہ ہے۔آج کی عوامی اجتماعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ شعور اور فکر کو زندانوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

نال، جو کبھی تعلیم و شعور کا گہوارہ تھا، آج جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ بزنجوں اسکوائیڈ جیسے گروہ، جو ریاست کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں، خوف و بلیک میلنگ کے ذریعے حکمرانی کر رہے ہیں۔ یہ گروہ نہ صرف تعلیمی اداروں کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ منشیات کے سوداگروں کو بھی تحفظ فراہم کر رہے ہیں

بلوچستان کی تاریخ جبر اور بغاوت کی ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش ہے، اور نال اس جنگ کا وہ میدان ہے جہاں غلامی اور آزادی آمنے سامنے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بزنجوں کی حکمرانی نے اس سرزمین کو فکری اور جسمانی قید میں جکڑ رکھا ہے۔ نال میں بزنجوں کی اجازت کے بغیر کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، لیکن ایک ایسے انسان کو شہید کرنا، جو اپنی دنیا میں مگن تھا شاید اسکا گناہ یہی ہے کہ اس کا ایک بھائی 11سالوں سے زندان کی تاریکی میں قید ہے اور ایک اپنی قومی بقا کیلئے شہید ہوچکا ہے، شہید شاہ جان کو شہید کرنا، محض ایک اتفاق نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے—

بزنجوں کی سازشیں انگریزوں کی نوآبادیاتی چالوں سے مختلف نہیں۔ یوں کیوں کہ برنجوں بلوچوں کے انگریز ہے، کیونکہ وہی پرانی حکمت عملی— عوام کو تقسیم کرنا، شعور کو دبانا، اور خوف کے ذریعے حکمرانی کو قائم رکھنا۔ اگر برطانوی سامراج نے بلوچ قوم کو اپنی بندوق کی نوک پر غلام بنانے کی کوشش کی، تو بزنجوں نے اسی غلامی کو برقرار رکھنے کے لیے سامراجی طریقے اپنائے۔

شاہ جان بلوچ کی شہادت کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں تھی۔ ہر باشعور انسان جانتا ہے کہ اسے کیوں اور کس نے شہید کیا۔ بزنجوں اسکوائیڈ کا وجود ہی اس لیے ہے کہ مزاحمت کے ہر نشان کو مٹا دیا جائے، تاکہ خوف کی حکمرانی کو دوام ملے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ سچ کو نہ گولی مٹا سکتی ہے، نہ ظلم، نہ جبر، اور نہ دھوکہ۔

بزنجوں کی بندوقیں عارضی ہیں، ان کی سازشیں وقتی ہیں، مگر مزاحمت مستقل ہے۔ یہ زمین ان شہیدوں کے خون سے سیراب ہوئی ہے جنہوں نے غلامی کو قبول نہیں کیا۔ وہ جانتے تھے کہ آزادی کسی کا دیا ہوا تحفہ نہیں، بلکہ ایک حق ہے جو تاریخ میں ہمیشہ قربانیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔

نال کی سرزمین اس حقیقت کی سب سے بڑی گواہ ہے کہ طاقت کا توازن ہمیشہ بدلتا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب بزنجوں کی بندوقیں خاموش ہو جائیں گی، مگر آزادی کی گونج ہر سو سنائی دے گی۔ کیونکہ ظلم جتنا بھی طاقتور ہو، تاریخ نے ہمیشہ فیصلہ آزادی کے حق میں دیا ہے!

آج نال میں ہزاروں کی تعداد میں جمع عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ ریاستی جبر، بزنجوں کی اجارہ داری، اور خوف کی حکمرانی اپنی حیثیت کھو چکی ہے۔ یہ اجتماع محض لوگوں کا ہجوم نہیں، بلکہ تاریخ کا وہ فیصلہ ہے جو واضح کر رہا ہے کہ نظریہ زندان میں قید ہو سکتا ہے، مگر مر نہیں سکتا۔ بزنجوں کی ریاستی پشت پناہی، ان کے تمام حربے، اور ان کی طاقت اُس فکر کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی جو اسیر چیئرمین زاہد کُرد، اسیر چیئرمین زاکر مجید، سنگت رفیق، فدائی شہید بابر مجید جان اور شہید یوسف جان نے زندہ رکھی۔

فرانز فینن اپنی کتاب The Wretched of the Earth میں لکھتے ہیں کہ جب ایک محکوم قوم کے شعور میں آزادی کا بیج بو دیا جائے، تو پھر کوئی جبر اسے ختم نہیں کر سکتا۔ آج نال میں گونجنے والے نعرے اسی سچائی کا اعلان ہیں کہ بزنجوں شکست کھا چکے ہیں اور وہ قیدی، جو جسمانی طور پر زندان میں ہیں، فکری میدان میں جیت چکے ہیں۔

ایڈورڈ سعید اپنی کتاب Culture and Imperialism میں بیان کرتے ہیں کہ سامراج ہمیشہ طاقت کے زور پر محکوم اقوام کے نظریے کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے، مگر جب عوام کا شعور بیدار ہو جائے، تو طاقت کے تمام ستون گرنے لگتے ہیں۔ نال میں جمع ہونے والے عوام نے یہی اعلان کر دیا ہے— کہ جبر وقتی ہو سکتا ہے، مگر مزاحمت دائمی ہے۔

آج یہ اجتماع واضح کر چکا ہے کہ بزنجوں کی طاقت دھوکے کی بنیاد پر کھڑی تھی، اور دھوکہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا۔ وہ شہداء، جن کے خون نے اس زمین کو سینچا، آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں، اور ان کی سوچ نال کی گلیوں میں گونج رہی ہے۔ کیونکہ تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ آزادی کے حق میں ہوتا ہے، اور یہ فیصلہ نال کی سرزمین پر آج پھر لکھ دیا گیا۔۔۔

ریاست ہمیشہ سے سرداروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی آئی ہے۔ قبائلی ڈھانچہ، جو کبھی بلوچ قوم کی اجتماعی قیادت اور خودمختاری کی علامت تھا، آج ایک شکنجہ بن چکا ہے، جس میں عوام کی گردن جکڑی جا رہی ہے۔ جب بھی آزادی کی بات کی جاتی ہے، سرداری نظام کو ایک دیوار کے طور پر کھڑا کر دیا جاتا ہے تاکہ عوام کی مزاحمتی آواز کو دبایا جا سکے۔

یہی استعماری حکمت عملی الجزائر، فلسطین اور آئرلینڈ میں بھی دیکھی گئی، جہاں ریاستی طاقت نے مقامی قبائلی یا اشرافیائی طبقات کو قابو میں لا کر عوام کے خلاف استعمال کیا۔ بلوچستان میں بھی یہی پالیسی چل رہی ہے۔

جنگ صرف گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بارود کی بو نہیں، بلکہ یہ نظریات، شناخت، اور اختیار کی وہ کشمکش ہے جو تاریخ کے صفحات پر اپنے نشان چھوڑ جاتی ہے۔ جہاں آزادی پر پہرہ بٹھایا جاتا ہے، وہاں بغاوت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ لیکن ہر جنگ محض اسلحے سے نہیں جیتی جاتی— یہ تبھی زندہ رہتی ہے جب اس کا نظریہ عوام کے شعور میں رچ بس جائے، جب اس کا بیانیہ نسل در نسل منتقل ہو، اور جب مزاحمت ایک اجتماعی وجود میں ڈھل جائے۔

بلوچستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ یہاں کی مزاحمت صرف بندوق کے دھانے سے نہیں، بلکہ قلم کی سیاہی، فکر کی روشنی، اور تاریخ کے بیانیے سے بھی لڑی جا رہی ہے۔ ریاستی جبر بغاوت کو لمحہ بھر کے لیے روک سکتا ہے، مگر مزاحمت کو مٹا نہیں سکتا، کیونکہ مزاحمت کوئی فرد نہیں کہ مار دی جائے، کوئی تحریک نہیں کہ دب جائے— یہ ایک حقیقت ہے، ایک سچائی جو ہر جلتے گھر کی راکھ سے، ہر گمشدہ وجود کی خاموشی سے، اور ہر شہید کے لہو سے سر اٹھاتی ہے۔

اور سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے ایوان ہمیشہ لرزتے ہیں، لیکن مزاحمت کا نظریہ کبھی نہیں جھکتا۔ آج بلوچستان کی فضا میں جو گونج سنائی دیتی ہے، وہ صرف احتجاجی نعروں کی بازگشت نہیں، بلکہ ایک ایسی تاریخ کا تسلسل ہے جو غلامی کے ہر پنجے کو توڑنے کے لیے لکھی جا رہی ہے۔ یہی وہ سچ ہے جو نہ جلایا جا سکتا ہے، نہ قید کیا جا سکتا ہے— یہی وہ سچ ہے جو ہمیشہ دائمی رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں