بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر صبیحہ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ جب ہم نے راجی مچی کا اعلان کیا تھا، اسی وقت ریاست نے ہم پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ ہر وقت ہمیں، ہمارے لوگوں اور پوری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ فلاں جگہ ہجوم مشتعل ہو گیا، اور ریاستی اداروں کی فائرنگ سے کئی لوگ زخمی ہوئے اور مارے گئے۔ ہم بار بار کوشش کرتے رہے کہ لوگ مشتعل نہ ہوں، لیکن ہم تب بھی جانتے تھے اور اب بھی جانتے ہیں کہ لوگ مشتعل تھے ہی نہیں۔
انہوں لکھا کہ ریاست کو مارنا تھا، اس لیے اس نے کوئی جھوٹا جواز بنا لیا۔ لیکن آج سب سمجھ چکے ہیں کہ مسئلہ ہجوم کے مشتعل ہونے کا تھا ہی نہیں۔ نہ ہی آج وڈھ کا مسئلہ ہجوم کا تھا۔ مسئلہ ہر وقت طاقت کے نشے میں ڈوبی اس فوجی ذہنیت (مشرفوں/مشرف) کا تھا، جو اکبر خان سے پہلے بھی، بعد میں بھی، اور اب بھی ہمیں کیڑے مکوڑوں کی طرح سمجھتی آئی ہے۔ ان کے نزدیک ہمارے خون کی کوئی قیمت نہیں، کیونکہ ہم زیرِ تسلط ہیں، اور جو جبر کے سائے میں ہو، اس کی سانسوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر صبیحہ نے لکھا کہ طاقت کا نشہ ہمیشہ سے طاقتوروں (مشروفوں/مشرف) کو رہا ہے، مگر اس بار جو رویہ اختیار کیا گیا ہے، وہ سب سے زیادہ گھناؤنا ہے، لوگوں کو سیاسی طور پر دبانے کیلئے بلیک میلنگ کا سہارا لیا جارہا ہے، میرے والد میر بشیر احمد کو مجھے بلیک میل کرنے کے لیے جبری طور اٹھایا گیا ہے، اُس دن کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج وڈھ کے رہنے والوں سمیت پورے بلوچستان کے خون کا فیصلہ ایک ایف سی سپاہی طے کرتا ہے۔ جہاں اس کی مرضی اور خواہش ہوتی ہے، وہیں گولیوں کی نظر پڑتی ہے۔
صبیحہ بلوچ نے کہا کہ میرے وڈھ میں رہنے والے بلوچ فرزندو، آپ اور پورا بلوچستان جو قربانیاں دے رہا ہے، تاریخ انہیں سنہری حروف میں لکھے گی۔ یہی مزاحمت ایک دن نئی صبح کا نوید بنے گی۔ بس اسی مزاحمت کو پورے بلوچستان میں زندہ رکھنا ہے۔