مافوق الفطرت جنگجو – مقبول ناصر

98

مافوق الفطرت جنگجو

تحریر: مقبول ناصر

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں شاید جَنگ سے زیادہ مسحورکُن، متشدد انسانی مظہر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ کتابیں اور فلمیں اس کے تحیّر میں اضافے کے ہی اسباب پیدا کرتی آئی ہیں۔ اقوام، ممالک، گروہ گزشتہ تاریخی دستاویزات میں کیسے لڑے اور فتح و شکست کے کن نتائج کے حصول کنندہ ہوئے، اور موجودہ ادوار میں ذرائع حرب سمیت رسد، نقل و حمل اور ابلاغ کے ذرائع ان جنگوں اور جنگجوؤں کی صلاحیتوں پر کس طرح اثرانداز ہو رہے ہیں، غرضیکہ ان موضوعات پر لاکھوں صفحات کا مواد اور بھاری بجٹوں کی ہزاروں فلمیں دستیاب ہیں۔

جنگجوؤں کی ماورائے فطرت / طبعی صلاحیتوں کے حوالے سے اگر آپ اسمِ صفات اردو میں ڈھونڈیں (ان کی تعداد کثیر شاید نہ ہو)، لیکن مطلب برآری کے لیے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے۔ مافوق الفطرت، کرشماتی، دیومالائی، جادوئی وغیرہ۔

قصہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی لہریں، سوشل میڈیا کی وساطت سے ایک بہت ہی اعلیٰ شخصیت کا خطاب بطور ناظر آپ کو پیش کرتی ہیں، جس میں اعلیٰ شخصیت اپنے تیقن اور عزائم کے ساتھ بلوچستان میں 23/24 سالوں سے بے جگری سے لڑتے “پندرہ سو” بلوچ جنگجوؤں کو مخاطب کر رہے ہیں۔ تعداد کے حوالے سے مختلف النوع تاثرات پر مبنی وی لاگز، پوڈکاسٹس آپ کو ان دنوں دیکھنے کو ملیں گی۔

‘تعداد’ اصل میں چند تاریخی حوالوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتی ہے۔ جس میں اس سے قبل ایک سپہ سالار نے مخصوص الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے “نیست و نابود” کرنے کے خدائی صفات سے خود کو متصف تصور کیا تھا۔ دائروں میں پروش پاتا آمرانہ فطرت ‘ریپیٹیشن اور تکرار’ کو ترویج سمجھتا ہے۔ (اس فطرت کے سامنے آپ کو تاریخ اور آمروں کی ہیجان میں مبتلا کرنے والی فہرست رکھنے کی بجائے؛ اپنے نظریے کی وجدانی کسوٹی پر توجہ دینے پر خود کو قائل کر لینا چاہیے۔ اس میں وارم ہول اور وائٹ ہول کے تصورات سے بھی مدد لیا جا سکتا ہے، جس میں وارم ہول کا تصور حربی تزویرات کو ازسرنو تشکیل دینے اور پرکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے)۔

(کمبخت تاریخ بھی نری جنگی شہوانیت سے بھری پڑی ہے، محض وائلڈنِس!) مشہور مثالوں کے تحت تاریخی دستاویزات میں رومن اسپارٹکس اپنے 73 گلیڈی ایٹر رفقاء کے ساتھ حربی سلسلوں کا آغاز کرتے ہیں۔ (اسپارٹکس پر ایک اعلیٰ ٹی وی سیریز بھی موجود ہے، جس میں شہوانی عکس بندیوں کو بھی حربی کَتھارسِس کے زُمرے میں شمار کیجیے)۔

علاوہ ازیں، عظیم المرتبت رسولِ خدا جنگ بدر میں 313 جفاکش جنگجوؤں کے ساتھ ہزاروں کے لشکر سے لڑے تھے۔ ھوڈو جنگ میں چار سو پولش جنگجو سلطنتِ عثمانیہ کے چالیس ہزار فوجیوں سے لڑے اور جیتے۔ جنگ ماراتھن، پلیز، غرضیکہ سیکڑوں مثالیں مصدقہ تاریخی دستاویزات میں موجود ہیں۔

لیکن آپ کو جو چیز حیرت زدہ کر دیتی ہے وہ جدید ادوار میں جدید ترین حربی وسائل اور ہتھیاروں کے حامل مُلکوں کی افواج سے لڑتی گروہیں ہیں، جنہیں بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔

شاید حقائق دکھانے کے جو زاویے ہیں وہ مسخ کیے گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر جس کی جس قدر قُدرت ہو گی، وہ اس خون آشام انسانی مظہر یعنی جنگ کو اپنے فتوحات پر منتج قرار دے کر فریق کی شکست اور نقصانات کو اعصاب شکن الفاظ اور تراکیب کے ساتھ تخلیق کیے / گھڑے گئے بیانیوں میں پیش کرتا ہے۔

لاکھوں کلومیٹر پر پھیلے جغرافیائی حدود میں ان “سیکڑوں” جنگجوؤں کی موجودگی اور اُرش آپ کو ایک مخصوص اسمِ صفت کو چننے کی ترغیب دیتے ہیں: مافوق الفطرت۔ ان لاکھوں کلومیٹر پر محفوظ سفر اور منتخب ہدف پر اُرش قطعاً انسانی اوصاف رکھنے والے عام لوگوں کی صلاحیت نہیں ہو سکتی، یہ کچھ اَور ہو سکتا ہے۔ سائنس کے وجود سے پیشتر کی کوئی مخلوق۔

بطور انسان آپ دیکھتے ہیں کہ (یہ مخلوق) فضائی ذرائع نقل و حمل نہیں رکھتے، لیکن اس کے باوجود وہ متواتر اُرش کرتے اور اس سلسلے کو دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ تصادموں میں انہیں بھاری جانی نقصانات بھی اٹھانے پڑے ہیں، لیکن یہ “سیکڑوں” دَسیوں میں تبدیل ہونے میں نہیں آ رہے۔

ہمارے حکام کئی بار ہمسایہ ممالک سے (ان ماورائی قوت کے حامل جنگجوؤں کے حوالے سے) احتجاج کر چکے ہیں اور ان ہمسایہ ملکوں پر الزام ہے کہ وہ اپنی سرزمینوں کو ان “سیکڑوں” جنگجوؤں کو آزادانہ استعمال کی اجازت دے رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں کیے گئے ان مہلک حملوں پر محض طائرانہ نظر ہی دوڑائیں، آپ ششدر رہ جائیں گے کہ اگر جنگجوؤں کی تعداد “سیکڑوں” میں ہے اور ان کی رسائی ہر اُس جگہ ہے جسے وہ اپنا ہدف قرار دے کر اُس پر اُرش کرتے ہیں، تو تصور کریں اگر وہ ہزاروں میں ہوں تو جنگی منظرنامہ کن خطوط پر مشتمل ہوگا۔

(اس پر بھاری — عوامی ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے — چرب وظیفوں پر پلنے والے جونک نما ماہرین کیسے ‘تجزیات’ تراشیں گے! لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ وہ تجزیات کے نام پر ‘تخلیقات’ پیش کر سکتے ہیں، قابلِ عمل تزویرات اور حکمتِ عملی ہرگز پیش نہیں کر سکتے۔ (“حکمت” کے استعمال پر مجھے معاف کیجیے))

تو وہ کیا شے ہے جو ان “سیکڑوں” جنگجوؤں کو مافوق الفطرت بنا رہی ہے؟ کیا آپ بھی وہی پڑھنا چاہیں گے جو آپ کے دل کی ارتعاش زدہ دھڑکنوں / اُمنگوں سے تعلق رکھتا ہے؟ اور کیا اسے دلائل کے بعد آپ کے سامنے پیش نہ کیا جائے؟

لیکن الفاظ اور پیچیدہ / فنکارانہ تجزیوں کے گورکھ دھندوں سے پَرے، حقیقت یہ ہے کہ پیش بندی کے طور پر دونوں فریقین کی جانب سے ‘بقا’ کے مسئلے کو (لغت اور دانائی کی) تمام تر موشگافیوں کے لاحاصل ہونے کے بعد آخری نتیجہ / حل قرار دیا گیا ہے، جس پر تمام حدوں سے آگے جانے تک کا تہیہ کیا گیا ہے۔

(چاہے کل، شہوانی جنگی جذبوں سے عاری، غیر ملکی تاریخ داں کی لکھی گئی تاریخ اِسے جغرافیہ کی سمٹتے اور پھیلتے نئی حدبندیوں کے لیے ‘وحشت ناک / صبر کی بے ثمری / مذاکرات اور تسلیم کرنے کی غلطی نہ کرنے کے عقیدت مند؛ وسط ایشیائی نسلوں کی؛ ثقافتی / تاریخی فخر لیکن تاریخ کی کیا حیثیت؟ اِسے بھی آنے والی نسلیں بطور ایک کتاب / ای بک خرید / ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھیں گی، اور اس پر میمز بنا سکیں گی۔ اور اِسے قطعاً نہ بھولیے کہ بزکشی میں مردہ جانور کا استعمال کرتے ہوئے اسے نیزے کی نوک پر سجا کر فتح کی نمائش (طفلانہ جذبات کے تحت) کی جاتی ہے۔

حوالہ جات:
وارم ہول اور وائٹ ہول کے تصورات کے لیے درج ذیل لنک سے تفصیلی معلومات حاصل کی جا سکتی ہے:

‏https://youtu.be/6y5hGiqd9rA?si=_etAgl69F9ensD1M


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں