قومی یکجہتی و قومی شعور – سفیر بلوچ

108

قومی یکجہتی و قومی شعور

تحریر: سفیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تسلط سے نجات اور بلوچ قومی شناخت و بقاء کے لیے مزاحمتی جدوجہد دبنے ابھرنے اور سُکڑنے اور پھیلنے کے مراحل و منازل طے کرتے جس طرح آج اس مقام تک پہنچی ہے اسی طرح ریاست کی طرف سے جبر و استبداد کے نت نئے طریقے نئے پینترے، آلہ کار اور ذرائع استعمال ہوتے دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔

تسلط سے نجات اور استبداد کے پنجوں سے آزاد ہونے کی جدوجہد کے دوران قوم اور سرزمین کو توانائی ملتی رہتی ہے اور ادھر ڈوبے اُدھر نکلے کے مصداق نئے مراکز اور ابھار کے مراکز بھی نئے پن کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں۔

کسی بھی قبضہ گیر ریاست کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ اُن رشتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور کترنے میں کامیابی ہو جو مقبوضہ قوم و زمین کو باہم پیوست کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں اور دوسرا ایسی جگہوں یا سرکلز تک رسائی ممکن ہو اور اپنے انتشاری حربے استعمال کرنے کا موقع مل سکے جو مقبوضہ قوم کی قومی طاقت کا مرکز و منبع ہیں. تحریک کو توانائی فراہم کرنے والے سرکلز تک دسترس کی کوششوں کے دوران ریاست کی حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے پینترے آزمائے جو ظاہراً تو جدوجہد سے متصادم نظر نہ آئیں لیکن آگے جاکر تحریک کی بیخ کنی کرنے میں مددگار ثابت ہوں اس کے لیے وہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل استعمال کرنے یا بروئے کار لانے سے دریغ نہیں کرتا۔ ریاست جہد کاروں یا تنظیموں کے مابین مسابقت کا منفی رجحان داخل کرنے کی کوششیں بھی کرتا ہے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں سب سے پہلے تنظیموں کے آپس کی ہم آہنگی پر اثرات پڑتے ہیں مجموعی طور جدوجہد کو تقویت دینے کا ماخذ ہم آہنگی کو زک پہنچے تو قومی یکجہتی کی مضبوط و مربوط سطح تک پہنچنے سے پہلے تنظیمیں زیادہ نہیں تو ایک قدم ضرور ہل جاتے ہیں. مسابقتی دوڑ میں شامل ہونے سے گرچہ منزل مقصود پس منظر میں نہیں چلی جائے تب بھی ایک نقطہ اپنے اصلی راہ ء ہدف سے سرک جانا ہی باہمی تعاون کو انتشار کی طرف لے جانے کے لیے کافی سمجھا جائے۔

ایک ریاست جتنی بھی زوال پزیر ہو ایک مقبوضہ سرزمین اور زیر تسلط قوم کی نسبت اس کے پاس وسائل کی فراوانی ہوتی ہے ریاست کو اسکی اپنے حدود سے باہر دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدات تجارت آزادانہ نقل و عمل کی آسانیاں رہتی ہیں وہ مقبوضہ زمین اور اپنے زیر تسلط قوم کے جغرافیائی اہمیت اور وسائل پر سودا بازی کر کے بھی اپنے مفادات کو محفوظ رکھ سکتا یا حاصل کر لیتا ہے۔ ریاست اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو مخفی ہوکر نہیں بلکہ نمایاں طور پر ریاستی بیانیے کو پھیلانے کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں ان ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے ریاست اپنے بیانیے کو فروغ دیکر اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کیطرف بڑھ رہی ہوتی ہے زیر تسلط قوم کے چھوٹے مسائل جو کہ ہر ایک زندہ سماج کا لازماً حصہ ہوتی ہیں کو ریاستی بیانیے کو فروغ دینے والے ذرائع ہوا دیتے ہوئے تضادات کی شکل میں ابھارنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ چھوٹے مسائل کو منافرت کی حد تک لیجانا اور سماجی تقسیم کا باعث بنانا اور واضح تفریق کی شکل میں بڑھاوا دینا متسلط کی پالیسی ہوتی ہے جو اسے غیر محسوس انداز میں جاری رکھتا ہے اس طرح کی پالیسیوں کی نشاندہی اور ریاست کی جانب سے بڑھاوا دینے کی مذموم کوششوں کا تدارک تسلط سے نجات کی جدوجہد کرنیوالی تنظیمیں ہی کرسکتی ہیں یہ پھر ان تنظیموں کی سیاسی شعور و سیاسی دانش پر منحصر ہے کہ وہ بروقت اسطرح کے کوششوں کے سامنے بند باندھتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ دوران جدوجہد تحریک میں جاندار کردار ادا کرنیوالی تنظیموں کی سیاسی دانشمندی کا ہر لمحہ امتحان سے گزرتا ہے. جس طرح کہ پہلے کہا کہ ایک ریاست جتنی بھی زوال پزیر ہو محکوم قوم کے بنسبت اس کے پاس وسائل کی فراوانی ہوتی ہے. ایک محکوم اور زیر تسلط قوم کے وسائل کیا ہیں؟ وہ اپنے وسائل کو کیسے بروئے کار لاہے کہ اسے تسلط سے نجات اور آزاد وطن کے حصول میں کامیابی نصیب ہو۔

منزل تک پہنچنے کی جدوجہد میں ایک محکوم کے لیے اس کے وسائل قومی یکجہتی اور قومی شعور ہیں اور قوم اور سرزمین اس کی سب سے بڑی طاقت، قومی شعور و یکجہتی اسے کسی بھی طاقت سے لڑنے اور اسے زیر کرنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے اور قوم و سرزمین کو طاقت سمجھنا اس کو غیروں پر انحصار کرنے سے روک دیتا ہے. قومی یکجہتی و قومی شعور اسے سیاسی فہم و ادراک دیتا ہے معاملات کو حل اور مسائل کو رفع کرنے کیلئے تقویت فراہم کرتا ہے دوران جدوجہد قبضہ گیر کی گرفت کمزور پڑجانے کی صورت میں بے ساختگی سے روک دیتا ہے. قومی شعور و سیاسی بصیرت کسی بھی منفی رجحان کی پیروی کرنے سے روکے رکھتا ہے قومی شعور و قومی یکجہتی محکوم کے لیے طاقتور ترین ہتھیار ہوتے ہیں اور قوم و سرزمین اس کا سب سے مضبوط قلعہ اور پناہ گیر، ورنہ محکوم قوم کا کوئی پائیدار دوست نہیں ہوتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔