فدائی یاسر جان: ایک خواب، ایک انقلاب، ایک قربانی ۔ عارف بلوچ

172

فدائی یاسر جان: ایک خواب، ایک انقلاب، ایک قربانی

تحریر: عارف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں کئی گوریلا تحریکوں نے قابض افواج کی ان ریل گاڑیوں کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی ہے جن میں فوجی ایک صوبے سے دوسرے صوبے منتقل ہوتے ہیں، چاہے چھٹیوں پر ہوں یا ڈیوٹی میں تبادلہ ہو۔ کچھ ریلوں میں پانچ سو، کچھ میں سات سو سے آٹھ سو تک فوجی سفر کرتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں ایسے چھ (6) واقعات رونما ہوئے، جن میں سے صرف دو کامیاب ہوئے۔ ان میں ایک کامیابی کسی غیر معروف گوریلا تنظیم کی تھی، جبکہ دوسری کامیابی بلوچ سرزمین کی مزاحمتی قوت بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے حصے میں آئی۔

یہ آپریشن “درہ بولان” کے نام سے موسوم تھا، جس کے دوسرے مرحلے میں جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کیا گیا۔ اس ریل میں کم از کم دو سو کے قریب فوجی، ایف سی، پولیس اہلکار اور ان کے اہلِ خانہ سوار تھے۔ خواتین اور بچوں کو رہا کر دیا گیا، جبکہ باقی فوجیوں کو یرغمال بنایا گیا۔ مطالبہ سادہ اور سیدھا تھا: لاپتہ بلوچوں کو رہا کیا جائے۔ اس مطالبے کیلئے 48 گھنٹے کی مہلت دی گئی۔ لیکن پاکستانی ریاست نے مذاکرات یا انسانی ہمدردی کی بجائے، طاقت کے استعمال کو ترجیح دی اور سرمچاروں پر آپریشن شروع کر دیا۔ مہلت کے خاتمے کے بعد فدائیوں نے دو سو فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔

اس آپریشن میں فتح اسکواڈ، ایس ٹی او ایس ایجنسی زراب اور مجید بریگیڈ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ لڑائی کے دوران بارہ سرمچار شہید ہوئے، جن میں پانچ فدائی، تین ایس ٹی او ایس اور چار فتح اسکواڈ سے تعلق رکھتے تھے۔ نوشکی میں قافلے پر ہونے والے وی بی آئی ای ڈی حملے میں فدائی مہزام بلوچ عرف میرک شہید ہوا، جو شہید فدائی شہزاد کوبرا کا بھائی تھا۔

فدائیوں کی یہ کارروائی نہ صرف عسکری لحاظ سے ایک کامیاب مثال بنی، بلکہ بلوچ مزاحمت کی جدوجہد کو ایک نئی بلندی عطا کر گئی۔ انہی شہداء میں فدائی یاسر جان عرف شاہویز بولانی بھی شامل تھا، جو نہ صرف ایک جنگجو بلکہ ایک نظریاتی انقلابی، ایک عاشقِ وطن، اور ہمارے لئے ایک استاد و راہنما تھا۔

جب یاسر جان چشمہ زہری میں پیدا ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے وطن بلوچستان نے خود اس کے کانوں میں شہادت کی اذان دی ہو۔ ایک نوجوان جو کبھی صاف ستھرے کپڑوں کے بغیر نہ نکلتا، وہی وطن کی محبت میں پتھروں پر سونے، بوسیدہ کپڑوں میں پہاڑوں کی خاک چھاننے پر آمادہ ہو گیا۔ وہ دشمن کو تلاش کرتا، ماں بہنوں کے آنسوؤں کا حساب لینے نکلا، اور آخرکار وطن کی گود میں ہمیشہ کی نیند سو گیا۔

یاسر جان تعلیم یافتہ تھا، میٹرک کیا تھا۔ اس کے خاندان میں کئی لوگ پاکستانی فوج، نیوی اور خفیہ اداروں سے منسلک تھے، یہاں تک کہ ایک رشتہ دار کیپٹن قدیر سمالانی آئی ایس آئی میں تھا۔ لیکن یاسر نے اپنے قومی شعور کو ان خونی رشتوں سے بالاتر سمجھا اور کھل کر اپنے خاندان کے سامنے پاکستان سے لاتعلقی اختیار کی۔

یاسر ہر وقت ہمیں مزاحمت کا سبق دیتا، ہمیں مسلح جدوجہد پر آمادہ کرتا۔ ایک دن اُس نے موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے کہا:
“عارف، یار، چل پہاڑوں پر، بس اب بندوق اٹھانی ہے، یہ ریاست امن کو نہیں سمجھتی۔”
اور اسی لمحے سے میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ اس راہ کا مسافر بنوں گا۔

ریل ہائی جیکنگ سے ایک رات پہلے، ہم دشمن کے ٹارگٹ کے نزدیک بیٹھے تھے۔ ریل کے ہارن نے خاموشی توڑی۔ سب نے دعا مانگی کہ ریل آ جائے، ہماری قربانیاں ضائع نہ ہوں۔ اور جب ریل قریب آئی، تو یاسر جان نے مجھے آخری بار آواز دی:
“تِنا خیال اے، تِخِس خیال ئٹ جنگ کیس گُڑا، رخصت اف اوارُن”
(اپنا خیال رکھنا، اچھی طرح لڑنا، اب رخصت اے پیارے۔)

یہ الفاظ میرے دل میں آج بھی تلوار کی طرح پیوست ہیں۔ وہ لمحہ، وہ جدائی، آج بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

شہید یاسر جان نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ قربانی، حب الوطنی اور جدوجہد محض نعرے نہیں بلکہ زندہ عمل ہیں۔ وہ ایک نظریہ تھا، جو آج بھی ہر فدائی، ہر مزاحمت کار، ہر بلوچ کے دل میں زندہ ہے۔ وہ خضدار کی ہوا میں، زہری کے پہاڑوں میں، بولان کے درّوں میں، لیاری کے سائے میں، اور استاد اسلم کے کاروان میں زندہ ہے۔

یاسر جان، تم ہم سے جسمانی طور پر جدا ہو چکے ہو، لیکن تمہارے خیالات، تمہارا جذبہ، تمہاری وارثت ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔ تم نے بندوق ہمیں سونپ دی ہے، اور ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ اسے کبھی زمین پر نہیں گرنے دیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں