شہید ظفر جان: ابتدائی زندگی سے قومی مزاحمت تک کا سفر
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوست
زندگی کیا ہے؟ خوشی یا غم؟ دکھ یا تکلیف؟ جینا یا مرنا؟
زندگی کے مختلف مراحل سے گزر کر اسے جینا ضروری ہوتا ہے، اور ایسے جینا چاہیے کہ موت بھی زندگی کے آگے شرما جائے۔ زندگی درحقیقت زندہ دلی کا نام ہے، اور زندہ دلی وہی لوگ دکھاتے ہیں جو حقیقی معنوں میں جینے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے لیے جینے کی خواہش رکھتے ہیں بلکہ اپنے عمل اور قربانی سے پوری قوم کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں، کٹھن اور تاریک راہوں پر روشنی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پتھر سے سر تو ٹوٹ سکتا ہے، مگر پتھر نہیں ٹوٹتا۔ شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ پانی کا ایک قطرہ مسلسل گرتا رہے تو آہستہ آہستہ پتھر کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے اسے ٹوٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بلوچستان بھی ایسی سرزمین ہے جہاں کے لوگوں نے اپنے سروں کی قربانی دے کر اُس پتھر کی بنیادیں ہلا دی ہیں، جسے سیاست کی زبان میں “ریاست” کہا جاتا ہے۔
میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے شہید ظفر جان کو قریب سے دیکھا۔ میں ان کے نظریات سے متاثر ہو کر بی ایس او آزاد میں شامل ہوا۔ میں نے ہمیشہ انہیں پتھروں سے سر ٹکراتے دیکھا، لیکن کبھی اُن کے سر پر زخم نہیں دیکھے—بلکہ ان کی استقامت اور مستقل مزاجی نے پتھروں پر خراشیں ڈال دی تھیں۔
کراچی کے ماری پور جیسے محروم علاقے سے لے کر بلوچ قومی مزاحمتی سیاست تک، انہوں نے ہمیشہ طاقتوروں کو للکارا اور ہر بار سرخرو ہوئے۔ اتنے سرخرو کہ جب تک دنیا باقی ہے، ان کی صدائیں سنگھور پاڑہ سے لے کر بولان کی چٹانوں تک گونجتی رہیں گی۔ ان کی یہ للکار ریاست کے خلاف مسلسل مزاحمت کی علامت بنی رہے گی۔
ابتدائی زندگی
شہید ظفر جان 1986 میں ماری پور ٹیکری ولیج میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، مرحوم خداداد، شہید کی پیدائش سے کچھ مہینے قبل بیرون ملک گرفتار ہوئے اور کئی برس بعد واپس لوٹے۔ جب وہ واپس آئے، تو ظفر جان جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ غربت اور حالات نے انہیں کم عمری میں ہی مزدوری پر مجبور کر دیا۔ وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے اور شام کو علاقے میں مختلف اشیاء فروخت کر کے گزر بسر کرتے۔
کچھ ہی سال بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا، مگر اس صدمے نے ان کے حوصلے کو متزلزل نہ کیا۔ وہ اس قدر باشعور ہو چکے تھے کہ اپنے کندھوں پر پورے گھر کی ذمہ داری اٹھا لی۔ محنت کے ذریعے وہ اپنے خاندان کا سہارا بن گئے۔
آبائی علاقہ پسماندہ ہونے کے باعث تعلیمی مواقع محدود تھے۔ صرف ایک پرائمری اسکول تھا، جہاں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، مگر آگے تعلیم جاری رکھنے کے بجائے مزدوری کو ترجیح دی۔ ابتدا میں عام مزدور کے طور پر کام کیا، پھر فیکٹری میں، بعد ازاں چھوٹا کاروبار شروع کیا، اور بالآخر بس کنڈیکٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔
یہ وہ دور تھا جب بلوچستان کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ جبری گمشدگیاں اور مسخ شدہ لاشیں معمول بن چکی تھیں۔ یہی جبر وہ چنگاری تھی جو ظفر جان کے دل میں شعلہ بن کر بھڑک رہی تھی۔ وہ روزانہ ہم سے ملتے، بلوچستان کے حالات اور ریاستی مظالم پر بات کرتے۔ وہ ہمیں قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ ہم بھی بی ایس او آزاد میں شامل ہو کر قومی جدوجہد کا حصہ بنیں۔
ہم اُس وقت سیاسی طور پر فعال نہیں تھے، مگر ان کے عمل سے اس قدر متاثر ہوئے کہ علاقے میں ان کے ساتھ مل کر شہداء کے پوسٹر لگاتے، برسی کے موقع پر چاکنگ کرتے۔
انہیں کرکٹ سے بے حد شغف تھا اور وہ علاقے کی ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ قیادت کی جو صلاحیت ان میں تھی، وہ کھیل کے میدان سے لے کر سماجی زندگی تک ہر جگہ نمایاں تھی۔
مجھے ہمیشہ یہ سوچ کر حیرت ہوتی کہ ایک فرد اپنے اندر کتنا درد لیے پھرتا ہے—ایک طرف گھریلو ذمہ داریاں، دوسری طرف قومی جدوجہد، اور ساتھ ہی علاقے کے بچوں کے لیے ایک صحت مند ماحول بنانے کی کوشش، تاکہ وہ تباہ کن سرگرمیوں کا شکار نہ ہو جائیں۔
علاقائی خدمات
انہوں نے نہ صرف گھریلو ذمہ داریاں نبھائیں بلکہ علاقے میں بھی نمایاں سماجی کردار ادا کیا۔ بچپن ہی سے ان کے دل میں عوامی درد اور سماجی شعور موجود تھا، جو ذاتی خواہشات پر غالب آ گیا تھا۔
ماری پور کے ان علاقوں میں جہاں ریاستی غفلت عیاں تھی—پانی، تعلیم، صحت اور سیوریج جیسے مسائل اپنی جگہ موجود تھے—ظفر جان جانتے تھے کہ یہ محرومیاں کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم نوآبادیاتی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
جب ان کے علاقے میں پانی کی قلت جان بوجھ کر پیدا کی گئی، تو انہوں نے خواتین، مرد، بچے، جوان سب کو یکجا کیا اور سڑکوں پر احتجاج کیا۔ نتیجتاً علاقے میں قادر پٹیل جیسے سیاستدانوں کو آنا پڑا اور انہوں نے پانی کے مسئلے کے فوری حل کی یقین دہانی کروائی۔
اسی طرح جب گینگ وار اور قبضہ مافیا نے علاقے کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا، تو وہ سب سے آگے رہے۔ اسکول کی زمین کو بازیاب کرانا ان کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ یہ خدمات ہی تھیں جن کی وجہ سے دوستوں میں وہ “ماما” کے نام سے مشہور ہو گئے۔
سیاسی جدوجہد
ہم اس وقت سیاست سے ناواقف تھے۔ نہ سوشل میڈیا کا سہارا تھا، نہ سیاسی تنظیموں سے آگاہی۔ لیکن ظفر جان نے، شاید تجربے سے یا جذبے سے، ہمیں بار بار حقیقت کا سامنا کرایا—کسی کی لاش ملی، کسی کو اغوا کر لیا گیا—اور ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک اضطراب رہتا۔
مجھے یاد ہے، 10 اگست کی رات وہ میرے پاس آئے اور کہا: “کل 11 اگست ہے، آزادی کا دن ہے، چلو چاکنگ کرتے ہیں۔” کیونکہ انہیں لکھنا نہیں آتا تھا، میں نے ان کی مدد کی۔ پھر 14 اگست کو یوم سیاہ کی مناسبت سے چاکنگ کی۔ ہم تنظیم میں شامل نہ تھے، لیکن ہم نظریے کے ساتھ تھے۔
11 اگست 2012 سے 5 جنوری 2013 تک ہم نے تنظیمی رکنیت کے بغیر سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اسی دوران انہوں نے بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کی اور ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کارواں کا حصہ بن گئے۔
تنظیم میں وہ سب سے زیادہ متحرک تھے—سرکلز کی قیادت، احتجاج کی تیاری، گاڑیوں کا بندوبست—ہر کام میں آگے۔
2013 سے 2019 تک بی ایس او آزاد سے وابستہ رہے اور پھر دوستوں کے مشورے سے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) میں شامل ہوئے، جہاں مختلف ذمہ داریاں انجام دیں۔
مسلح جدوجہد اور شہادت
کراچی میں جب شہید شاری بلوچ نے فدائی حملہ کیا تو شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے گئے۔ متعدد بلوچ فرزندوں کو اغوا کیا گیا۔ یہ وہ موڑ تھا جہاں ظفر جان کو یقین ہو چکا تھا کہ مسلح مزاحمت ہی واحد راستہ ہے۔
جولائی 2022 میں وہ خاموشی سے گھر چھوڑ گئے اور بولان کے پہاڑوں میں شامل ہو گئے۔
2023 کے آخر میں انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ ہم نے بات چیت کی، پرانی یادیں تازہ کیں، اور ہمیشہ کی طرح وہ رازدار رہے۔ کہتے تھے: “تنظیم کی سب سے بڑی طاقت رازداری ہے۔”
مارچ 2024 میں جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا۔ 214 فوجیوں کو یرغمال بنایا گیا۔ جب پاکستانی فوج نے تنبیہ کے باوجود آپریشن کیا، تو تمام یرغمالی ہلاک کر دیے گئے۔
بی ایل اے کے ترجمان جہیند بلوچ نے شہداء میں “فدائی سنگت ظفر بلوچ عرف منان” کا نام بھی شامل کیا۔ ان کا تعلق ماری پور، کراچی سے تھا، اور وہ 2022 میں بی ایل اے مجید بریگیڈ کا حصہ بنے تھے۔
ان کی فدائیت، بہادری، اور حکمت عملی دشمن کے لیے مسلسل تباہی کا پیغام تھیں۔ ان کی شہادت ہر بلوچ نوجوان کے لیے مشعل راہ ہے، اور ان کی قربانی اس تحریک کے اگلے باب کا آغاز ہے۔
شہید ظفر جان کی قربانی محض ایک فرد کی قربانی نہیں بلکہ پوری قومی تحریک کی تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔
انہوں نے جس نظریے کے ساتھ جیا اور مرا، وہ نظریہ آنے والی نسلوں کو جینے کا ہنر سکھائے گا۔
ان کی جدوجہد، ان کا عزم، اور ان کی فدائیت تاریخ میں ایک ایسے چراغ کی مانند زندہ رہے گی جو اندھیروں میں امید کی روشنی بانٹے گا۔
ایک دوست، ایک استاد، ایک رہنما کو کھونے کا درد ناقابلِ بیان ہے، مگر ماما جان، آپ کی قربانی نے ہمارے حوصلے اور بھی بلند کر دیے ہیں۔
وہ دن دور نہیں، جب ہم آپ کے خواب کی تعبیر آزاد بلوچ قومی ریاست کی صورت میں پائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں