دریائے سندھ پر وفاقی حکومت کے تحت پنجاب میں چھ نئی نہروں کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف سندھ بھر میں جاری احتجاجی تحریک چھٹے روز میں داخل ہو گئی ہے، قوم پرست جماعتوں، وکلا تنظیموں، کسانوں، سول سوسائٹی اور عوامی تحریکوں کی قیادت میں جاری ان مظاہروں نے سندھ پنجاب بارڈر کو مکمل طور پر بند کردیا ہے، جس کے باعث اربوں روپے کا تجارتی مال راستے میں رکا ہوا ہے۔
مظاہرین کا مؤقف ہے کہ ان نہری منصوبوں سے سندھ کو اس کے پانی سے محروم کیا جارہا ہے جو کہ نہ صرف صوبے کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ زراعت، ماحولیات اور مقامی معیشت کے لیے تباہ کن ہے۔
مظاہرین کی جانب سے اس وقت کموں شہید، دیرا موڑ، ببرلو اور دیگر داخلی مقامات پر دھرنے جاری ہیں، احتجاج کے باعث کوئلے سے بھری کئی مال بردار گاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ کراچی بندرگاہ اور تھرکول پروجیکٹس کے راستے بھی متاثر ہیں۔
کراچی، سکھر، حیدرآباد، نوابشاہ اور دیگر شہروں میں احتجاجی ریلیاں اور دھرنے جاری ہیں مظاہرین کا کہنا ہے کہ نہری منصوبے واپس لیے جانے تک احتجاج جاری رہے گا۔
ببرلو میں وکلا نے وفاقی حکومت کے وفد سے بات چیت کے بعد ایک ’وکلا ایکشن کمیٹی‘ تشکیل دی ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ جب تک نہروں کے منصوبے اور فوجی کمپنیوں کو دی گئی کارپوریٹ فارمنگ کی اجازت مکمل طور پر منسوخ نہیں ہوتی سند، پنجاب بارڈرز بند رہیں گے۔
دوسری جانب سندھ حکومت نے وفاق سے احتجاجی صورتحال پر بے بسی ظاہر کی ہے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے قوم پرست رہنماؤں اور وکلا سے مذاکرات کی کوشش کی گئی ہے تاہم وکلا اور قوم پرست قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ کسی قسم کی بات چیت منصوبوں کی مکمل منسوخی کے بغیر ممکن نہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل، پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین، اور سرائیکی رہنما راشد عزیز بھٹہ نے سندھ کی عوامی جدوجہد کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کے وسائل پر کسی قسم کا قبضہ یا معاہدہ قبول نہیں اور یہ احتجاج اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک دریائے سندھ پر تمام نہری منصوبے اور فوجی کارپوریٹ فارمنگ کے معاہدے منسوخ نہیں کیے جاتے۔