سائیں جی ایم سید کا فکر، قومی تضاد اور پاکستانی ریاست کا بحران
تحریر: سید اصغر شاہ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان کے قیام کے بعد جنوری 1948ع میں انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ہر ملک کی خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں، جن کا مقصد عالمی اور ملکی سیاست پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی بھی اسی قسم کی ایک تنظیم ہے جس کا مقصد بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنا ہے۔ اس تنظیم کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک دشمن ملک کی پالیسیوں کے بارے میں علم حاصل کرنا اور ان کا توڑ نکالنا ہے۔ ایسی تنظیمیں اپنی جاسوسی اور جاسوسوں کا جال دوسرے ممالک میں پھیلاتی ہیں۔ انہیں جاسوسی کرنے اور جاسوسوں کے اس جال کو پھیلانے کے لیے مخصوص فنڈز ملتے ہیں۔ ایسے فنڈز جن کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی ان فنڈز کا کوئی آڈٹ ہوتا ہے۔ 1948ع سے 1970ع تک آئی ایس آئی کا سارا کردار عالمی سیاست تک محدود رہا۔ ملکی سیاست میں اس کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا لیکن 1970ع میں بنگال میں قوم پرست تحریک کا عروج اور اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی وہ واقعات تھے جنہوں نے پاکستانی سیاست کا رخ بدل دیا۔ 1970ع سے پہلے، آئی ایس آئی ایک نجی فوجی تنظیم تھی جو فوجی اہلکاروں کو بھرتی کرتی تھی، لیکن 1970ع کے بعد، آئی ایس آئی کا دائرہ وسیع کر کے عام شہریوں کو بھی شامل کیا گیا اور اس نے عام شہریوں کو بھی بھرتی کرنا شروع کر دیا۔ شہریوں کو بھرتی کرنے کا مقصد ملک کے اندر جاسوسی کا جال پھیلانا تھا، تاکہ ملک کے اندر ہونے والے ہر واقعے کی خبر آئی ایس آئی کے ذریعے فوج تک پہنچ سکے۔ چونکہ بنگلہ دیش ایک قوم پرست تحریک کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا، اس لیے فوج نے پاکستان کے باقی حصوں میں قوم پرست تحریکوں کو ابھرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ 1970ع کے انتخابات میں چونکہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) پختونخوا اور بلوچستان سے کامیاب ہوئی تھی اور نیپ کے بنیادی اصول قوم پرستی اور سوشلزم تھے، اس لیے ریاستی اداروں کی شروع سے ہی نیپ کے ساتھ نہیں بنتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ 1970ع میں انتخابات ہوئے لیکن 1972ع تک اقتدار نیپ کے حوالے نہیں کیا گیا۔
اس دوران خان غفار خان اور عبدالولی خان کو ملک دشمن قرار دینے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ کیونکہ عبدالولی خان نیپ کے صدر تھے، اس لیے نيپ کو ملک دشمن جماعت ثابت کرنے کے لیے پروپیگنڈا شروع کیا گیا کہ عبدالولی خان قیام پاکستان کے مخالف تھے اور مہاتما گاندھی کے قریبی ساتھی تھے۔ ولی خان کے والد خان غفار خان سرحدی گاندھی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود مئی 1972ع میں اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنا پڑا اور پختونخوا اور بلوچستان میں نیپ کی حکومتیں بن گئیں۔ بلوچستان میں نیپ کی حکومت کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ فوج نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کر دی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کو گرفتار کر کے اپنی تحویل میں لے لیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری پر آزاد بلوچستان کی تحریک کی قیادت کرنے کا الزام تھا۔ آزاد بلوچستان کی تحریک کو کچلنے کے لیے بلوچستان میں فوجی آپریشن کیا گیا اور فوجی ہیلی کاپٹروں نے بم گرا کر بلوچ گاؤں کو تباہ کیا۔ 1973ع میں بلوچستان میں نیپ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور 1974ع میں پختونخوا میں نیپ کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور ولی خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ NAP کو ملک دشمن جماعت قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا۔ پابندی لگانے والوں نے ایسی پابندی لگائی کہ نیپ پھر کبھی بحال نہ ہو سکی۔
چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن میں جیت کر آئی تھی، اس لیے سندھ میں قوم پرست تحریک کے عروج کو روکنے کی ذمہ داری پیپلز پارٹی کو سونپی گئی۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے ٹوٹنے کے بعد باقی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم بنے تھے ۔ اس لیے 70 کی دہائی میں آئی ایس آئی کو مضبوط کرنے میں سب سے بڑا کردار ذوالفقار علی بھٹو نے ادا کیا تھا۔ جب تک ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں تھے، پیپلز پارٹی اور آئی ایس آئی نے سندھ میں قوم پرست تحریک کو کچلنے کے لیے مل کر کام کیا۔ لیکن 1977ع میں جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو آئی ایس آئی سندھ میں تنہا رہ گئی۔ چونکہ بھٹو کا تختہ پلٹنے اور گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی نے ضياء مخالف موقف اختیار کیا تھا، اس لیے جنرل ضياء کا پورا دارومدار آئی ایس آئی پے آ گیا۔ نتیجے کے طور پر، ضیاء کے دور میں، آئی ایس آئی کو اس قدر بھاری فنڈنگ اور بااختیار بنایا گیا کہ یہ ایک مطلق العنان ادارہ بن گیا۔
آئی ایس آئی نے نہ صرف قوم پرست تحریکوں کو کچلنے کا کام کیا بلکہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کی بھی کوشش کی۔ دوسرے لفظوں میں جنرل ضیاء نے آئی ایس آئی کو اتنا طاقتور بنا دیا کہ وہ یہ فیصلے کرنے لگی کہ کن پارٹیوں کو اقتدار دیا جائے اور کن پارٹیوں کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر رہنا چاہیے۔ ملکی سیاست میں آئی ایس آئی کی مداخلت کے بعد ماضی میں ایک سکینڈل یہ بھی سامنے آیا تھا کہ آئی ایس آئی نے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بنایا تھا اور اس اتحاد میں شامل جماعتوں کو فنڈز بھی فراہم کیے تھے۔
اس سے یہ بات سامنے آئی کہ آئی ایس آئی کو قومی خزانے سے اتنی رقم ملتی تھی کہ وہ اپنے ایجنٹوں پر خرچ کرنے کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو خرید کر کے انہیں الیکشن لڑنے کے لیے رقم فراہم کرتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں آئی ایس آئی اس ملک کی بے تاج بادشاہ بن چکی تھی، جو چاہے کر سکتی تھی۔ وہ جتنی رقم چاہتی تھی خرچ کر سکتی تھی اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں تھا۔
تاہم دنیا کے ہر ملک میں ایسے خفیہ ادارے موجود ہیں جنہیں ہر سال ایک مخصوص رقم دی جاتی ہے اور اس رقم کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ یہ سوال نہیں پوچھا جاتا کہ یہ رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوئی۔ لیکن ایسی خفیہ تنظیموں کو کتنی رقم مل سکتی ہے اس کی ایک حد مقرر ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں آئی ایس آئی کو ملنے والی رقم کی کوئی حد نہیں تھی اور نہ ہی کسی میں یہ سوال کرنے کی جرات تھی کہ آئی ایس آئی نے وہ رقم کہاں اور کس پر خرچ کی۔
لیکن کہتے ہیں کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، اس لیے کسی حد تک وہ ہمت اقتدار میں آنے والے نواز شریف نے کر کے دکھائی۔ نواز شریف بھی پنجابی تھا اور فوج بھی پنجابی تھی تو پنجابی نے پنجابی کو کاٹا۔ نواز شریف نے آئی ایس آئی سے کہا کہ آپ جو اتنی بڑی رقم خرچ کرتے ہیں اس کا حساب دیں اور آپنے فنڈز کا آڈٹ کروائیں۔ آئی ایس آئی نے اپنے فنڈز کا آڈٹ کرنے کے بجائے فنڈز کے حصول کے نئے طریقے تلاش کیے اور ان طریقوں کو تلاش کرنے کے لئے فوج کو ایک کارپوریٹ باڈی میں تبدیل کر دیا گیا۔ یعنی فوج ایک تجارتی انجمن میں تبدیل ہو گئی۔ فوج براہ راست سرمایہ کاری میں اتر آئی۔ جس کا مطلب تھا کہ فوج نے نواز شریف کو منہ توڑ جواب دیا۔ فوج نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنا پیسہ خود کمائیں گے، اپنی مرضی سے خرچ کرینگے، اور آپ پر انحصار نہیں کریں گے۔ فوج نے خود کھاد کے کارخانے اور شوگر ملیں لگانی شروع کر دیں۔ قومی دفاع کے لیے ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں پر فوج نے قبضہ کر لیا۔ تیل اور گیس کے ذخائر کے ٹھیکے فوج نے خود سنبھالے۔ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے ٹھیکے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) کو دیے گئے، جو کہ فوج کا ہی ایک ادارہ ہے۔ بات صرف یہیں تک نہیں رکی، بلکہ فوج براہ راست تعمیراتی شعبے میں آگئی۔ ہاؤسنگ کالونیاں بنانے کے لیے تعمیراتی کمپنیاں بنائی گئیں۔ کمرشل پلاٹوں پر قبضہ کرکے شاپنگ مالز اور شادی ہال بنائے گئے۔
پاکستان 1947ع میں قائم ہوا، اس وقت ملک کے تجارتی سرمائے پر میمن تاجروں کا کنٹرول تھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں پہلی بار پنجابی سرمایہ دار میمن سرمایہ داروں کو پیچھے چھوڑ کر تجارتی سرمائے میں داخل ہوئے لیکن جب فوج خود تجارتی سرمائے میں داخل ہوئی تو فوج اور پنجابی سرمایہ دار کا آپس میں ٹکراؤ ناگزیر تھا۔ فوج اور پنجابی سرمایہ داروں کے اس ٹکراؤ نے جلتی پے تیل کا کام کیا۔ نواز شریف خود پنجاب کے سرمایہ دار تھے، اس لیے وہ پنجابی سرمایہ دار لابی کی نمائندگی بھی کر رہے تھے، اور پنجابی سرمایہ داروں کے نمائندے کے طور پر فوج کے ساتھ ان کی کشمکش شدت اختیار کر گئی۔ نواز شریف کے پورے دور اقتدار میں پنجاب کا کوئی آرمی چیف ایسا نہیں تھا جس سے ان کا ٹکراؤ نہ ہوا ہو۔ جہانگیر کرامت ہو، پرویز مشرف ہو، راحیل شریف ہو یا قمر باجوہ۔ یہ آرمی چیف اور نواز شریف کی کشمکش نہیں تھی بلکہ فوج اور پنجابی سرمایہ داروں کے درمیان کشمکش تھی جو ہر آرمی چیف کے ساتھ تصادم کی صورت میں ظاہر ہو رہی تھی۔ اس کشمکش کے نتیجے میں نواز شریف کو تین بار رسوا ہونا پڑا اور ایوان اقتدار سے نکلنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کے ذریعے نواز شریف کو تیسری بار اقتدار سے ہٹایا گیا تو فوج نے نیا امیدوار لانے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کے تحت عمران خان کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ لیکن وہ تجربہ بھی ناکام ہوا، عمران خان بھی فوج سے لڑ پڑے۔ عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان اختلافات بڑھے تو عمران خان کو معزول کر کے اقتدار PDM (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے حوالے کر دیا گیا۔ پی ڈی ایم کسی ایک پارٹی کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک سیاسی اتحاد کا نام ہے جس میں تمام سیاسی جماعتیں، بڑی اور چھوٹی، جو فوج کے ساتھ ایک ہی صفحے پر بیٹھنے کے لیے تیار تھیں۔
دراصل فوج اور سیاستدانوں کی اس کشمکش میں پاکستانی وفاق کمزور ہو رہا تھا، پنجاب خود تقسیم ہو رہا تھا اور پنجابی فوج اور پنجابی سرمایہ دار آمنے سامنے تھے۔ اس لیے اس تنازع کا خاتمہ ضروری تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پی ڈی ایم نے ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا تاکہ ان کے درمیان تضاد ختم ہوسکے۔ نہ صرف سیاست دانوں کے درمیان چپقلش کو ختم کیا جا سکے بلکہ فوج اور سیاستدانوں کے درمیان جاری تناؤ کو بھی ختم کیا جا سکے تاکہ فوج اور سیاست دان پاکستان کے وفاق کے تحفظ کے لیے ایک پیج پر مل کر کام کر سکیں۔ جو بھی پی ڈی ایم کا یہ بلیو پرنٹ لے کر آیا وہ یقیناً اس ملک کا خطرناک اور چالاک ذہن رہا ہوگا، جس نے وفاق کی کمزور بنیادوں کو بچانے کے لیے ایک ایسا فارمولا لے کر آیا، جس میں ہر کوئی اپنے اختلافات بھلا کر وفاق کو بچانے میں لگ گیا۔ بات صرف سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی نہیں تھی بلکہ سیاسی پلیٹ فارم کے ساتھ معاشی پلیٹ فارم بنانے کی بھی تجویز تھی۔ اقتصادی پلیٹ فارم بنانے کی تجویز کا بنیادی مقصد فوج کے ساتھ سیاستدانوں کو وسائل کی لوٹ مار میں حصہ دار بنانا تھا۔
اس وقت تک فوج تجارت اور ٹھیکوں سے جو کچھ حاصل کر رہی تھی وہ اپنے اوپر خرچ کر رہی تھی اور سیاستدانوں کو ایک کوڑی بھی نہیں مل رہی تھی۔ اس لیے ملک کے سیاست دان اور بیوروکریٹس فوج کے کارپوریٹ باڈی ہونے سے ناخوش تھے۔ ملکی تجارت اور وسائل پر فوج کے کنٹرول پر انہیں سخت اعتراضات تھے۔ اس لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت تھی جس میں فوج، سیاست دان اور بیوروکریٹس مل کر ملکی معیشت کو کنٹرول کر سکیں اور وفاق، مظلوم قوموں کی لوٹ مار سے جو کچھ بھی کما رہا ہو اس میں
سب شریک ہو سکیں۔
ایسا معاشی پلیٹ فارم بنانے کے لیے ضروری تھا کہ حکومت کو فوج کا اعتماد حاصل ہو۔ لہٰذا 2022ع میں عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹ کر پی ڈی ایم کی حکومت بنائی گئی۔ PDM حکومت 2022ع میں قائم ہوئی اور SIFC (Special Investment Facilitation Council) کی بنیاد جون 2023ع میں رکھی گئی۔ یہ کونسل ملک کی معیشت کے تمام شعبوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ زراعت، تجارت، صنعت، سرمایہ کاری، غیر ملکی سرمایہ کاری، اور نجکاری، یعنی ملکی اثاثوں کی غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت سے لے کر سب کچھ سنبھالتی ہے۔ اس کے علاوہ چاروں صوبوں کے معدنی ذخائر کو بھی اس کونسل کے کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ اس ادارے کو چلانے میں سیاستدان، اعلیٰ فوجی افسران، اعلیٰ عہدے پر فائز بیوروکریٹس، حکومتی وزراء اور مشیروں کو شامل کیا گیا ہے اور یہ سب وسائل کی لوٹ مار میں شریک ہوں گے۔ یہ ادارہ انتظامی اور غیر انتظامی اراکین کا مرکب ہے۔ جو انتظامی ارکان انتظامیہ کو چلائیں گے ان میں وزیر اعظم بطور چیئرمین ادارے میں شامل ہوں گے۔ جبکہ آرمی چیف، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، وزیر خزانہ، وزیر صنعت و پیداوار، وزیر توانائی و انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزیر بجلی و پانی اور وزیر دفاع کو ممبران کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ انتظامیہ کے اراکین فیصلہ کریں گے کہ کیا بیچنا ہے، نہیں بیچنا، اور کتنے میں بیچنا ہے۔ دوسرے، جو غیر انتظامی ممبر ہیں، وہ صرف اپنا حصہ لیتے ہیں اور SIFC کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ ان نان ایگزیکٹو ممبران میں وفاقی حکومت کے تمام وزراء، صوبائی حکومتوں کے تمام وزراء، سیکرٹریز، ڈی جیز اور اہم بیوروکریٹس شامل ہیں۔
دفتر کا پورا عملہ فوجی ہوگا اور ادارے کا انتظام ایک ڈائریکٹر جنرل کے زیر انتظام ہوگا۔ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر فوج کے جنرل، کرنل اور میجر ہوں گے۔ ایس آئی ایف سی کے ساتھ بات چیت کرنے والے صارفین کو ون ونڈو سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ یعنی جب بھی کوئی غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لیے SIFC سے رابطہ کرتا ہے، SIFC کا فوجی عملہ متعلقہ سرکاری اداروں سے تمام دستاویزات مکمل کر کے خود سرمایہ کاری کرنے والے فریق کے حوالے کریگا۔ دوسرے لفظوں میں، SIFC کے فوجی افسران صوبائی وزراء اور سیکرٹریوں کو احکامات دیں گے، جو کاغذات خود تیار کریں گے، انہیں فوجیوں کے حوالے کریں گے، اور ان سے کمیشن کا اپنا حصہ وصول کریں گے۔
ایس آئی ایف سی کے کچھ ممبران ایسے ہیں جن کو انہوں نے خود ظاہر کیا ہے لیکن یقیناً اور بھی خفیہ ممبران ہوں گے جن کو بھی اپنا حصہ ملتا ہوگا۔
پی ڈی ایم میں بلوچستان کی وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جو قوم پرستی کا دعویٰ کرتی ہیں اور قومیت کے دعوے کے ساتھ پارلیمانی سیاست میں بھی شامل ہیں۔ انتخابات میں حصہ لیتے وقت ایسی جماعتوں کے رہنما آئین پاکستان کے وفادار بن جاتے ہیں اور جب جلسوں میں تقریر کرتے ہیں تو کٹر قوم پرست بن جاتے ہیں۔
اگرچہ ان سیاسی رہنماؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ پارلیمنٹ میں ایک آدھی نشست حاصل کرکے پہنچتے ہیں، لیکن پھر بھی انہیں پی ڈی ایم میں شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کا وفاق پاکستان کے ساتھ اتحاد قائم رکھا جا سکے اور ان کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو وفاق کے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ ایسے لوگوں کا خاصہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ اپنی قوم کے جھوٹے عشق میں مرے جاتے ہیں تو دوسری طرف وفاق پر بھی کوئی حملہ برداشت نہیں کرتے۔ ایسے لوگ نہ تو خود وفاق کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو نعرے لگانے دیتے ہیں۔
ایس آئی ایف سی کے یہ خفیہ ایجنٹ سندھ اور بلوچستان کی لوٹ مار سے بھی حصہ لیتے ہیں اور وسائل کی لوٹ مار پے مگرمچھہ کے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ وہ سب کچھ کرتے ہیں لیکن وفاق اور پنجاب کے خلاف نہیں بولتے۔ سندھ میں بہت سے قوم پرست ہیں جو وفاق کے خلاف نعرے لگانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ چلو یہ بھی اچھا ہے کہ وہ پی ڈی ایم میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ پی ڈی ایم ایک پارلیمانی اتحاد ہے اور یہ بچارے پارلیمنٹ میں ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
ایس آئی ایف سی بنیادی طور پر ایک انتہائی خطرناک ادارہ ہے جو ہمیں اندر سے کھاتا ہے اور سندھ اور بلوچستان کی لوٹ مار سے حاصل ہونے والے حصے کی لالچ دے کر ہمارے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ اگر وہ حصہ آدھی پائی بھی ہو تب بھی اربوں روپے بنتا ہے۔ یہ اربوں روپے ان لوگوں کو ملتے رہیں گے جب تک مظلوم قوموں کی لوٹ مار جاری رہے گی اور یہ لوٹ مار اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وفاق موجود ہے۔ اس لیے ایس آئی ایف سی پینل پر کام کرنے والے ایسے لوگ مر جائیں گے لیکن وفاق کے خلاف کبھی نعرے نہیں لگائیں گے۔
حال ہی میں، ذوالفقار بھٹو جونیئر نے جی ڈی اے (گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس) کے اجلاس میں شرکت کی۔ جب کوئی لیڈر کسی دوسری پارٹی کی میٹنگ میں جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اس پارٹی میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ لیکن ذوالفقار جونیئر واپس آئے اور کہا کہ وہ جے ڈی اے میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ جے ڈی اے میں بہت سے لوگ ہیں جو کارپوریٹ فارمنگ کی حمایت کرتے ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کارپوریٹ فارمنگ ایک SIFC اسکیم ہے۔ جسے “گرین پاکستان انیشیٹو” کے تحت شروع کیا گیا ہے۔ گرین پاکستان انیشیٹو منصوبہ SIFC کی نگرانی میں نافذ کیا جا رہا ہے۔ لہذا، SIFC سے وابستہ خفیہ بروکرز اس پروجیکٹ کی حمایت جاری رکھیں گے کیونکہ کارپوریٹ فارمنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حصہ ان بروکرز کو بھی حاصل ہوگا۔
کارپوریٹ فارمنگ کے لیے پاکستان کے چاروں صوبوں سے زمین کا انتخاب کیا گیا ہے، جو جلد یا بدیر فوج کو دی جائے گی۔ سندھ کے کئی اضلاع میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے لاکھوں ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے اور باقی اضلاع میں جہاں مختص نہیں کی گئی وہاں زمینیں الاٹ کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔
واضح رہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے زمین الاٹ ہونے کے بعد سندھ کے ہر ضلع میں ایک اسٹیٹ بنائی جائے گی، اس اسٹیٹ کا مکمل کنٹرول فوج کے پاس ہوگا۔ اس ریاست میں نہ تو سندھ حکومت کے قوانین لاگو ہوں گے اور نہ ہی سندھ حکومت کے اہلکار اس ریاست میں داخل ہو سکیں گے۔ اس اسٹیٹ میں موجود زمین سندھیوں کو کھیتی کے لیے بھی دستیاب نہیں ہوگی۔ کھیتی کے لئے بھی پنجاب سے لوگ بلا کر انہیں آباد کیا جائے گا۔ جب یہ کارپوریٹ فارمنگ سکیم مکمل ہو جائے گی تو سندھ کے ہر ضلع کی ڈیموگرافی بدل جائے گی اور ان کارپوریٹ فارمز میں رہنے والے پنجابی جب چاہیں گے دیہات میں آ کر سندھیوں کو مار سکیں گے۔
یہ بے شرم غدار پیپلز پارٹی والے آنکھیں بند کر کے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے زمینیں الاٹ کر رہے ہیں کیونکہ یہ غدار جتنی زیادہ زمین مختص کریں گے ان کا حصہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی وزراء سرکاری طور پر SIFC کا حصہ ہیں اور وہ اپنا حصہ سرکاری طور پر وصول کرتے ہیں۔ اس لیے سندھ حکومت میں موجود یہ غلیظ وزیر اور مشیر نہ تو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے زمینیں مختص کرنا بند کریں گے اور نہ ہی کارپوریٹ فارمنگ کی مخالفت برداشت کریں گے۔ اگر کوئی کارپوریٹ فارمنگ کی مخالفت کرے گا تو اس کا رویہ نوید قمر اور خورشید شاہ جیسا ہو جائے گا۔ ان دلالوں کے چہرے دیکھہ لو، SIFC کے دلالوں کے چہرے ایسے ہوتے ہیں۔
ایس۔آئی۔ایف۔سی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے 4.8 ملین یا 50 لاکھہ ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ان 50 لاکھ ایکڑ میں پنجاب کی زمینیں بھی شامل ہیں۔ لیکن پنجاب اور سندھ کی زمینوں میں فرق یہ ہے کہ اس سکیم میں پنجابیوں کی آباد زمینیں شامل نہیں ہیں۔ کیونکہ کاشت شدہ زمینیں شامل کرنے سے یہ زمینیں پنجابیوں سے چھیننی پڑے گی اور انہیں گاؤں سے باہر منتقل کر کے وہاں کارپوریٹ فارمنگ کرنی پڑے گی۔ اس لیے پنجابیوں کو بے گھر کرنے کے بجائے پنجاب کے تھل اور چولستان کے صحراؤں کو آباد کرنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں اور صحرائی زمینوں کاانتخاب کیا گیا ہے۔
جبکہ سندھ میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے جن زمینوں کا انتخاب کیا گیا ہے وہ وہی ہیں جن پر ہم اپنے آباؤ اجداد سے لے کر اب تک کاشت کرتے آئے ہیں۔ یہ زمینیں ہم سے لی جائیں گی، وہاں فارم بنائے جائیں گے، ہمارے گاؤں خالی کر دیے جائیں گے، اور انہیں کارپوریٹ فارمنگ میں شامل کر دیا جائے گا۔ یہ پی پی پی کے دلال حکمران ہمارے گاؤں خالی کرنے اور ہماری زمینوں پر قبضے کے نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ ہمارے گاؤں اور زمینیں اس لیے چھینی جا رہی ہیں کہ ہم اس ریاست میں غلام ہیں، اور غلاموں کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ ان کے وطن، وسائل اور زمینوں پر اسی طرح قبضہ کیا جاتا ہے۔
بنگال میں بھی پنجابیوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ جنرل ٹکا خان نے بنگالیوں کے لیے بھی یہ کہا تھا کہ انہیں بنگالی نہیں بلکہ بنگال کی زمین چاہیے۔ پنجاب کا ہر جنرل ٹکا خان ہے۔ کل بنگال کے لیے کہتے تھے، آج سندھ کے لیے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سندھی نہیں بلکہ سندھ کی زمین چاہیے۔
پچاس لاکھ ایکڑ اراضی کا انتخاب تو کیا گیا ہے لیکن ان صحرائی زمینوں کو کاشت کرنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے۔ پنجاب پہلے ہی اپنے پانچ میں سے تین دریا بھارت کو فروخت کر چکا ہے۔ اس کے اپنے استعمال کے لیے دو دریا باقی ہیں، جہلم اور چناب۔ جب سے بھارت نے بگلیہار ڈیم بنایا ہے تب سے دریائے چناب پر پانی کی قلت ہے۔ پنجاب کی وہ زمینیں جو چناب سے سیراب ہوتی ہیں پانی کی کمی کی وجہ سے سوکھ رہی ہیں۔ جہلم کے پانیوں پر آباد ہونے والی زمینیں آباد ہونے کے بعد جہلم کا باقی ماندہ پانی منگلا ڈیم میں جمع ہو جاتا ہے اور منگلا ڈیم میں جمع ہونے والے پانی کا ایک قطرہ بھی کہیں اور استعمال نہیں ہوتا۔ اس پورے نظام میں پانی کی کمی بڑھتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے جھلم کا بہاؤ کم ہو رہا ہے۔ جہلم کا بہاؤ کم ہونے کے بعد پنجاب چیخ رہا ہے کہ منگلا میں پانی کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب نظام میں پانی نہیں ہے، 50 لاکھ اضافی ایکڑ اراضی کو آباد کرنے کا منصوبہ دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ نادر شاہ کی ضد جیسی ضد ہے کہ ’’بھینس دودھ دے یا نہ دے، نادر شاہ کو دودھ چاہیے‘‘۔
جہلم اور چناب کے علاوہ تیسرا دریا جس پر پنجابیوں کی نظر ہے وہ دریائے سندھ ہے۔ یہ طے ہے کہ پنجاب اپنے دریاؤں سے پانی نہیں دے گا، اس لیے چولستان اور تھل کو آباد کرنے کے لیے دریائے سندھ سے ہی پانی لیا جائے گا۔ دریائے سندھ میں پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے۔ اس صورت حال میں کیا ہوگا کہ سندھ کو جو اضافی پانی ملے گا وہ بھی پنجاب اپنے صحراؤں کو آباد کرنے کے لیے لے جائے گا۔ یہ پنجابی نہ صرف اپنے صحراؤں کو آباد کرنا چاہتے ہیں بلکہ دریائے سندھ کے پانی کا رخ بھی اپنی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔ اگر دریائے سندھ کا رخ پنجاب کے صحراؤں کی طرف موڑ دیا گیا تو پورا سندھ بنجر ہو کر صحرا میں تبدیل ہو جائے گا۔
ان تمام باتوں کا پتا ہونے کے باوجود اس ملک کے صدر آصف علی زرداری نے کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر اضافی 50 لاکھ ایکڑ اراضی آباد کرنے کے لیے مزید چھ نہروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ ان میں سے دو نہریں پنجاب میں، دو کینال سندھ میں، ایک کینال بلوچستان میں، اور ایک کینال خیبر پختونخوا میں بنائی جائے گی۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد پورا سندھ پانی کی ایک ایک قطرے کو ترسے گا۔
یہ معلوم ہونے کے باوجود بھی کہ سندھ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسے گا، پھر بھی آصف علی زرداری نے ان چھے کینالس کی منظوری دے دی اور یہ منظوری اس اجلاس میں دی گئی جس میں ایس آئی ایف سی کے نمائندے موجود تھے۔ ایس آئی ایف سی کے ساتھ مل کر اس پراجیکٹ کو منظور کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آصف علی زرداری SIFC کا خفیہ ایجنٹ ہے اور کارپوریٹ فارمنگ پراجیکٹ کے تحت تیار کی جانے والی کسی بھی اراضی سے انہیں بھاری آمدنی حاصل ہوگی۔ آصف علی زرداری جیسے دلال اور غدار نے صرف اس رقم کے عیوض پورا سندھ پنجابیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور سندھ کے 7 کروڑ عوام کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔
سندھی عوام اس ساری صورتحال کو گہرائی اور باریک بینی سے دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاجن سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پنجاب جانے والے تمام راستوں، شاہراہوں اور رسد کو بلاک کر دیا ہے۔ اس کے باوجود پنجاب، سندھی عوام کے پرامن احتجاجوں اور دھرنوں کا نوٹیس تک لینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی پرامن و عدم تشدد کے خفت میں ڈوبے دوستوں کی بے تکی، فضول اور اوٹ پٹانگ باتیں سننے کو تیار ہے۔ اگر یہ پرامن اور عدم تشدد والے دوست و دانشور اپنی آنکھوں سے سیاہی کا چشمہ اور بزدلی کو چھوڑ کر اپنے قریب میں کامیاب ہونے والی بلوچ جنگ آزادی کو ہی دیکھ لیتے تو یہ بات دن کی روشنی کی طرح سو فیصد عیاں ہو جاتی کہ پاکستان ایک فاشسٹ ریاست ہے اور فاشسٹ صرف گولی کی ہی زبان سمجھتے ہیں۔
یہ ہمارے وطن کے وجود کی بقا کی جنگ ہے، جس کو جنگ آزادی میں تبدیل ہونا ہے۔ یاد رکھیں کہ وجود کے بقا کی جنگ کبھی بھی مرنے مارنے کے بغیر ختم نہیں ہوتی۔اس وقت معروضی حالات اور تاریخی سچائیاں ہمیں ایک بے رحم قومی جنگ کی طرف بلا رہی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں