ریاستی بیانیہ اور حقائق – ٹی بی پی اداریہ

141

ریاستی بیانیہ اور حقائق

ٹی بی پی اداریہ

پاکستان کی برسرِ اقتدار جماعتوں کے رہنما اور مقتدر قوتوں کے قریبی سمجھے جانے والے افراد یہ بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور سردار اختر مینگل کو بلوچستان میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے اور انہیں دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، عید کے دن بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پکار پر کراچی اور بلوچستان بھر سے لاکھوں لوگوں کے اجتماعات واضح پیغام دے رہے ہیں کہ عوام ریاستی جبر و تشدد کے باوجود مشکل حالات میں اپنے قائدین ماہ رنگ بلوچ، سمی دین، بیبگر اور صبغت اللہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بلوچستان کے متنازعہ حکومتی عہدیداران کے بیانات سے واضح ہے کہ وہ بلوچستان کے معروضی حقائق سے لاعلم ہیں اور عوامی مزاحمتی سیاست سے وابستہ قومی حقوق کے علمبردار رہنماؤں کو دہشت گردی سے منسوب کر رہے ہیں، جو حقائق کے منافی ہے۔ بلوچستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین کو پابندِ سلاسل کرنے کے خلاف مسلسل احتجاج اس بات کا مظہر ہے کہ انہیں بلوچ سماج کے ہر طبقے کی حمایت حاصل ہے۔

پاکستان کی مقتدر قوتوں کی بلوچستان کے تناظر میں حالیہ پالیسیوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ وہ بلوچستان میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن ان غلط فیصلوں کا نتیجہ ماضی کے اقدامات سے مختلف نہیں ہوگا۔ بلوچستان کی پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاسی جماعتیں متواتر اپنے خدشات کا اظہار کر رہی ہیں کہ فوجی آپریشن سے حالات میں سدھار کے بجائے مزید ابتری آئے گی۔ عوامی مزاحمتی تحریک ریاستی جبر و ناانصافیوں کے خلاف ابھری ہے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن سے بلوچ قوم کے زخم مزید گہرے ہوں گے۔ پاکستان کے اربابِ اقتدار فوجی آپریشن کا بیانیہ بنا کر سیاسی مسائل کو مزید گمبھیر کرنے کا سبب بنیں گے۔

فوجی آپریشن اور ریاستی جبر سے بلوچ قومی تحریک کو نہ پہلے ختم کیا جا سکا ہے اور نہ ہی اب ختم کرنا ممکن ہے، کیونکہ بلوچ قومی تحریک عوامی حمایت کی بنیاد پر استوار ہے اور قوم کی ہمدردیاں قومی تحریک کے ساتھ ہیں۔ بلوچ مسئلہ سیاسی ہے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن سے نہیں بلکہ معروضی حقائق کا ادراک کرکے، قومی حقوق پر دسترس اور حقِ حاکمیت تسلیم کرنے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔