ریاستی اداروں کی ہٹ دھرمی
ٹی بی پی اداریہ
پاکستان کی مقتدر قوتوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں کی بازیابی کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دھرنے کو حسبِ معمول طاقت کے زور پر ختم کرنے کی پالیسی برقرار رکھی ہوئی ہے، اور ریاست کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ عوام اور تاجروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سرمایہ داری کے لیے پرامن ماحول فراہم کرنے کی دعویدار حکومت، اپنے غلط فیصلوں سے مقامی تاجروں کو کروڑوں روپے کے نقصانات سے دوچار کر چکی ہے۔
بلوچستان کے متنازعہ حکومتی عہدیداران پریس کانفرنسز کے ذریعے ریاستی جبر کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پرامن عوامی مزاحمتی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی متواتر کوششیں کر رہے ہیں، جس سے ان کی غیر سنجیدگی آشکار ہو رہی ہے۔ حکومت کے غیر دانشمندانہ اقدامات کے باعث بلوچستان کی دو اہم ترین شاہراہیں پندرہ دنوں سے بند ہیں، اور اہم راستوں پر کنٹینرز رکھ کر اور خندقیں کھود کر عوام کی آمدورفت کے تمام ذرائع بند کر دیے گئے ہیں۔
بلوچ قوم پرست جماعتیں مسلسل ریاست کو خبردار کرتی رہی ہیں کہ پرامن تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنا ممکن نہیں۔ ریاستی جبر کے خلاف ابھرنے والی تحریک کو مزید جبر سے دبایا نہیں جا سکتا۔ ریاست کی غلط پالیسیوں کے خلاف بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتالیں، ریلیاں اور احتجاج اس بات کا ثبوت ہیں کہ بلوچ رہنماؤں کو پابندِ سلاسل کرنے کے باوجود عوامی مزاحمتی تحریک جاری رہے گی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ، بیبو بلوچ، بیبرگ بلوچ اور صبغت اللہ شاہ جی سمیت سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف مستونگ میں سردار اختر مینگل کا دھرنا پندرہ دنوں سے جاری ہے، لیکن ریاستی ادارے بلوچستان میں بگڑتے ہوئے حالات کا ادراک کرنے کے بجائے سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کے لیے گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں۔ گل زادی بلوچ کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان کی عدالتوں کا انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنا اور ریاستی اداروں کی ہٹ دھرمی بلوچستان کے موجودہ حالات کو مزید بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں۔