نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت و تجاوز کی بدولت بلوچستان میں بداعتمادی روزبروز بڑھ رہا ہے مائنز اور منرلز ایکٹ نے صوبوں میں مزید بے چینی پیدا کردی ہے ، معدنیات کے حوالے سے 1973 کے آئین کو پامال کرتے ہوئے بارہا وفاق کی مداخلت سے جہاں بلوچستان کے عوام میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے وہاں غربت جہالت اور بیروزگاری میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے عملی اقدامات کے زریعے بلوچستان کے عوام کو باور کرانا ہوگا کہ وہ سیندک، ریکوڈک گوادر سمیت بلوچستان کے مالک ہیں اور ان کے وسائل ان کی خوشحالی پر خرچ ہونگے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بارڈر ٹریڈ سے تیس لاکھ سے زائد لوگوں کا ذریعہ معاش وابستہ ہے جو قیام پاکستان سے قبل سے جاری ہے اب نت نئے طریقوں ، فارمولوں اور قوانین کے ذریعے بارڈر ٹرید کو انتہائی پیچیدہ بناکر تیس لاکھ سے زائد لوگوں کو نان شبینہ کا محتاج بنایا گیا ہے جس اے بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے بارڈر ٹرید پربھتہ خوری اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ہمارے لوگ صرف مزدوری کرتے ہیں باقی کثیر رقم افسر شاہی و مراعات یافتہ طبقات و فورسز کے نذر ہوجاتا ہے ۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے خواتین سمیت تمام سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کو غیرجمہوری عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سول مارشل لا نافذ کرکے سیاسی کارکنوں کو فورتھ شیڈول تھری ایم پی او جیسے فرنگی قوانین کے تحت پابند سلال کرکے حراساں کیا جارہا ہے جبکہ خواتین کو بھی بخشا نہیں جارہا ریاست اور بلوچستان کے عوام کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑی کرنے سے حالات میں مزید ابتری آہیگی جس سے اجتناب ضروری ہے ۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے پی پی ایل اور سیندک معائدوں کی توسیع کو بلوچستان کے ساتھ زیادتی قرار دی اور اس امر کا اظہار کیا کہ یہ کمپنیز حقیقی عوامی نمائندوں کی غیرموجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنے مرضی و منشا کے معائدے کروارہے ہیں جس سے بلوچستان کے عوام میں مزید بے چینی بڑھ رہی ہے ۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے واضح کیا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے اور مسخ شدہ لاشیں گرانے میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی روک تھام کیا جائے خواتین سمیت سیاسی کارکنوں لو فی الفور رہا کیا جاہے فورتھ شیڈول کا کالا قانون استعمال کرنے سے گریز کیا جائے بارڈر ٹرید کو آسان بناکر تلار چیک پوسٹ کو فی الفور ختم کیا جائے۔