بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے کانک کی رہائشی بی بی درخاتون نے دیگر خواتین کے ہمراہ ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ 7 اپریل 2025 کی شب چھ مسلح افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے اور 16 سالہ بیٹی نصرت بی بی کو اغواء کر کے لے گئے اور گھر کی خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
خاتون کے مطابق اغواء کار اس دوران انکے گھر سے موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیاء بھی ساتھ لے گئے۔
بی بی درخاتون کے مطابق اغواء کے دوران کھینچا تانی میں ایک ملزم کا نقاب اتر گیا جس کی شناخت کر کے خضدار سٹی تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار تو کیا مگر اسے مہمانوں کی طرح تھانے میں رکھا گیا ہے نہ اس سے مؤثر تفتیش ہو رہی ہے اور نہ ہی مغویہ کی بازیابی کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اغواء شدہ لڑکی کے والدہ نے الزام عائد کیا کہ ایس ایچ او سٹی پولیس کی مبینہ غفلت اور ملزمان سے نرم رویے کے باعث نصرت بی بی تاحال بازیاب نہیں ہو سکی، ایف آئی آر میں نامزد ملزم صدام سمیت دیگر ملزمان کی گرفتاری میں بھی پولیس پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔
بی بی درخاتون نے وزیراعلیٰ بلوچستان، آئی جی پولیس بلوچستان، ڈی آئی جی قلات رینج اور ایس ایس پی خضدار سے اپیل کی کہ وہ فوری مداخلت کر کے مغویہ کی بازیابی یقینی بنائیں اور ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مغویہ کو آج صبح تک بازیاب نہ کرایا گیا تو وہ اہل خانہ کے ہمراہ قرآن پاک ہاتھ میں لے کر کوئٹہ کراچی شاہراہ پر احتجاجاً دھرنا دیں گی اور یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کی بیٹی بازیاب اور مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان بااثر ہیں اور پولیس ان کے خلاف مؤثر کارروائی سے گریز کر رہی ہے، جس کے باعث مغویہ کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
واضح رہے کہ خضدار گردونواح میں قبائلی اور سرکاری اثر سوخ رکھنے والے مسلح گروہوں کی جانب سے خواتین کو اغواء کرنے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
رواں سال فروری میں خضدار ہی سے ریاستی پشت پنائی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ ارکان نے ایک گھر پر دھاوا بول کر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک خاتون عاصمہ جتک کو اغواء کرلیا تھا جس کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
خضدار واقعہ میں ملوث ملزمان تاحال گرفتار نہیں کئے جاسکے ہیں۔