امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ 11 مارچ کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے میں وہ ہتھیار استعمال ہوئے تھے جو افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی افواج نے وہاں چھوڑے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد پاکستانی حکام نے مبینہ طور پر حملہ آوروں کی جانب سے استعمال کی گئی تین امریکی رائفلوں کے سیریل نمبرز انھیں فراہم کیے تھے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت امریکی سرکاری ریکارڈز تک رسائی حاصل کی تو معلوم ہوا کہ ان میں سے کم از کم دو رائفلیں امریکہ کی جانب سے ماضی میں افغان فورسز کو فراہم کی گئی تھیں۔
سنہ 2018 میں کنکٹیکٹ میں کولٹ کی فیکٹری میں تیار ہونے والی ایم فور اے ون (M4A1) کاربائن رائفل جس کا سیریل نمبر W1004340 ہے مبینہ طور پر جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد مارے جانیوالے حملہ آوروں کے قبضے سے ملی تھی۔
اخبار کے مطابق یہ رائفل ان اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں میں شامل ہے جو امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد پیچھے رہ گئے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال مئی میں پاکستانی حکام نے انھیں ان درجنوں ہتھیاروں تک رسائی دی تھی جو ان کے مطابق مختلف کارروائیوں کے دوران پکڑے گئے یا مارے گئے عسکریت پسندوں سے حاصل کیے گئے تھے۔
اخبار کا دعویٰ ہے کہ مہینوں کی تحقیقات کے بعد امریکی فوج اور پینٹاگون نے واشنگٹن پوسٹ کو تصدیق کی کہ صحافیوں کو دکھائے گئے ہتھیاروں میں سے 63 ہتھیار وہی ہیں جو امریکی حکومت نے افغان فورسز کو فراہم کیے تھے۔
ان ہتھیاروں کے ذخیرے میں امریکی ساختہ اسلحہ جیسے ایم 4 اور ایم 16 رائفلز کے ساتھ ساتھ دیگر پرانے ہتھیار بھی شامل تھے جو زیادہ تر پچھلی افغان حکومت کو دیئے گئے تھے۔
واضح رہے کہ رواں سال مارچ میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کیا گیا جس میں ریل میں سوار مسافروں کو یرغمال کیا گیا بعد ازاں بی ایل اے نے تمام عام شہریوں کو چھوڑ دیا اور جعفر ایکسپریس میں موجود 214 پاکستانی فورسز کے اہلکاروں کو یرغمال بنالیا تھا۔
بی ایل اے نے یرغمالیوں کی رہائی کو قیدیوں کے تبادلے سے مشروط کیا اور پاکستانی فورسز کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا اس دوران پاکستانی فورسز نے آپریشن کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں بی ایل اے نے تمام دو سو سے زائد یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا جبکہ بی ایل اے نے اپنے 13 ساتھیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق مارے گئے حملہ آوروں سے امریکی ساختہ اسلحہ برآمد ہوا ہے اور اخبار کے مطابق یہی ہتھیار بی ایل اے کی حالیہ کارروائیوں کی شدت کی ایک بڑی وجہ بنے ہیں ۔ تاہم زمینی حقائق سے واقف صحافیوں اور بلوچستان میں مسلح تحریک پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا مؤقف مختلف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صرف امریکی ہتھیاروں کی موجودگی ہی بی ایل اے کی آپریشنل صلاحیت میں اضافہ کی واحد وجہ نہیں۔ حالیہ برسوں میں بی ایل اے ایک منظم اور مہلک باغی قوت میں تبدیل ہو چکی ہے جو بلوچستان کے کئی شہروں اور علاقوں میں بیک وقت پیچیدہ اور مربوط حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ایسی کارروائیاں صرف ہتھیاروں سے ممکن نہیں بلکہ ان کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو بی ایل اے کے پاس مسلسل بڑھ رہی ہے۔